متفرق خبریں

کراچی کو وفاق میں لینا قابل عمل؟

ستمبر 12, 2019 5 min

کراچی کو وفاق میں لینا قابل عمل؟

Reading Time: 5 minutes

تحریر: عبدالجبارناصر

سندھ میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمے، پیپلزپارٹی کے اندر فاروڈ بلاک کے قیام اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 149 (1)اور149(4)کے مطابق کراچی میں وفاقی مداخلت کی باز گشت ہے۔ 149 کے معاملےپر وفاقی حکومت کو اتحادیوں ’’گرینڈڈیمو کریٹک الائنس کی جانب سے سخت ردعمل مل سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق سندھ میں حکومت کی تبدیلی کے 6 ہی راستے ہیں۔پہلا راستہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود مستعفی ہوجائیں یا پیپلزپارٹی باہمی مشاورت و اعتماد سے تبدیل کرنے کی کوشش کے،مگر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور پیپلزپارٹی کی قیادت اس کے لئے تیار نہیں ہے۔

دوسرا راستہ وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف سندھ اسمبلی کے 168رکنی ایوان میں 85ارکان کی مدد سے عدم اعتماد کو کامیاب بناکروزیراعلیٰ کو ہٹادیا جائے مگر یہ راستہ بھی بظاہر انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ سندھ اسمبلی کے 168رکنی ایوان میں پیپلزپارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہے۔

بنیادی طور پر سندھ اسمبلی میں تین گروپ ہے،جن میں پہلا گروپ پیپلزپارٹی کے99 ارکان کا ہے۔ دوسرا گروپ تحریک انصاف اوراس کے اتحادیوں کے 64 ارکان کا ہے ،جس میں تحریک انصاف کے 30، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 21 اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس(جی ڈی اے) کے 13ارکان ہیں۔ تیسرا گروپ ہے مذہبی جماعتوں کے 4 ارکان کا ہے جس میں سے 3ارکان کا تعلق تحریک لبیک پاکستان اور ایک رکن متحدہ مجلس عمل (ایم ایم ٓے)کا ہے۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے ایک رکن معظم علی عباسی کی نا اہلی کے باعث پی ایس 11لاڑکانہ کی نشست خالی ہے۔

تحریک انصاف اور اتحادیوں کے پاس 64ووٹ ہیں مگر ان کو حکومت سازی کے لئے 85ووٹ کی ضرورت ہے اور ان کو مزید21ارکان کی حمایت درکار ہے۔اب تک ایم ایم اے اور تحریک لبیک پاکستان نے تحریک انصاف کے کسی غیر جمہوری عمل میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس لئے تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو 21ارکان پیپلزپارٹی سے ہی توڑنے پڑیں گے۔ مگر آئین کے آرٹیکل 63الف(1) زیلی آرٹیکل ’’ب‘‘(دوم) کے تحت پارٹی سے منحرف ہوکر اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان پارٹی سربراہ کی شکایت کے بعد رکنیت کے لئے نا اہل ہوجاتے ہیں۔ کیا اتنی بڑی تعداد میں ارکان نا اہل ہونے کے لئے تیار ہونگے؟ پیپلزپارٹی کے مبینہ ناراض رہنمائوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پارٹی سے بغاوت میں ان کو نہ صرف قانونی مشکلات کا سامنا ہوگا بلکہ سخت عوامی ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

تیسرا راستہ گورنر سندھ کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے ہدایت کرنا ہے ایسی صورت میں 85ارکان کی تعداد وزیر اعلیٰ کو پوری کرنی ہے، اس صورت میں کچھ ارکان غیر حاضر رہ کر پیپلزپارٹی کے لئے مشکل پیدا کرسکتے ہیں مگرپارٹی کی جانب سے ہدایت کے بعد غیر حاضر ارکان کے سروں پر نا اہلی کی تلوار لٹکی رہے گی، اس ضمن میں عائشہ گلا لئی نااہلی کیس کے فیصلے کو اہم قرار دیاجارہا ہے۔

چوتھا راستہ گورنر راج کا نفاذ ہے،مگر آئین کے آرٹیکل 234(1)کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے الگ الگ سفارش ضروری ہے۔ کیا تحریک انصاف سندھ میں گورنر راج کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے سفارش الگ الگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی؟ پانچواں راستہ آئین کے آرٹیکل 235کے تحت مالیاتی ایمرجنسی ہے، یہ راستہ بھی بہت مشکل ہے۔ یہ پانچ راستے توآئینی اور قانونی ہیں۔ چھٹا اورآخری راستہ مارشل لاء کا ہے جو آئینی اور قانونی نہیں ہے۔

رہی بات فاروڈ بلاک کے حوالے سے تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 10ستمبر کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسمبلی میں فارورڈ بلاک کی تشکیل کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بے بنیاد پروپیگنڈا ہے ۔ پیپلزپارٹی چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں مضبوط اور مستحکم ہے۔

وفاقی حکومت بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی میں بڑا فاروڈ بلاک بن چکاہے اور ان کا اشارہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کی جانب ہے کہ وہ اس فاروڈ بلاک کی قیادت کر رہے ہیں ۔اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی پہلے بھی اس کی سختی تردید کرچکے ہیں اور ے 11 ستمبر کو میڈسے گفتگو ،میں کہا ہے کہ فارورڈ بلاک بنانے کے حوالے سے میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، میڈیا ٹرائل میں مخالفین سمیت کچھ اپنے بھی ملوث ہیں۔ نیب الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں، کوئی غلط کام کیا نہ ہی کرپشن کی، میرے ہاتھ صاف ہیں جو وقت ثابت کر دے گا، جیلوں میں رہنا میرے لیے نئی بات نہیں، پیپلز پارٹی کا سچا جیالا ہوں جو جھکتا ہے نہ ہی بکتا ہے، کارکن بن کر شروعات کی، اتفاقی سیاست دان نہیں بنا، بلاول بھٹو، آصف زرداری اور فریال تالپور پر مکمل اعتماد ہے۔پارٹی کے خلاف ہونے والی ایسی سازشوں کو پارٹی قیادت کے حکم پر مکمل طور پرناکام بنائیں گے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف سندھ میں’’مہم جوئی‘‘ کی کوشش میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہی اور اس کا ادارک تحریک انصاف اوراتحادیوں کو بھی ہے۔ اب وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا آئین کے آرٹیکل 149(4)مطابق کراچی کو عملاً وفاق کے تحت الگ انتظامی یونٹ بنانے کا ’’شوشہ ‘‘ بھی اسی ناکامی کا عملی اعتراف ہے۔

آئین کے آرٹیکل 149(1)اور 149(4)پر عمل کے لئے وفاقی حکومت کو کراچی میں امن و امان کی مکمل خرابی یا اقتصادی صورتحال کی تباہی ثابت کرنا ہوگی اور یہ بھی کہ اس کی زمہ دار صوبائی حکومت ہے۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 149(1)اور 149(4)پرعمل سے قبل سندھ اسمبلی سے منظوری ضروری ہے۔ دوسری جانب امکان ہے کہ کراچی کو باقی سندھ سے انتظامی طور پر الگ کرنے منصوبے پروفاقی حکومت کو اتحادی گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا ہوسکتا ہے اور بعید نہیں کہ تحریک انصاف کے اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں کی جانب سے بھی ردعمل آئے۔

حالات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی وزارت قانون(وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم ہیں) دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دن بہ دن وفاقی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ حج کے دوران سندھ میں آئین کے آرٹیکل 104 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قائم مقام گورنر کی تقرری اوراسپیکر سندھ اسمبلی کے ردعمل پر پھر نوٹیفکیشن سے دستبرداری۔ الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کے حوالے آئین کے آرٹیکل 213 کی کھلی خلاف ورزی اور چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے سخت جوابی ردعمل۔

نیب اور اے این ایف کے تین ججوں کا تبادلہ اور واٹس ایپ کہانی ۔ 208 ارب روپے معافی صدارتی آرڈیننس اور سخت ردعمل پرواپسی کا اعلان اور جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس ۔ یہ سب عملاً وفاقی وزارت قانون کے کارنامے ہیں مگر اس میں سبکی اور بد نامی ایوان وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے حصے میں آئی ہے اور آئے گی۔ ہر اقدام کا اگر بغور جائزہ لیں تو حکومت کے لئے یہ بحران یا مستقبل کے لئے چارج شیٹ سے کم نہیں ہیں۔

بعض مخالفین کا کہنا ہے کہ فروغ نسیم صاحب ماضی میں ایم کیو ایم کے بانی کے خاص قانونی مشیر رہے اور سابق آمر پرویز مشرف کے بھی اور آج دونوں کے انجام سے سب واقف ہیں اور اب کہیں ’’ہیٹ ٹریک‘‘ نہ ہو جائے !!

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے