پاکستان

طیبہ کی کہانی عدالت میں

جنوری 11, 2017 5 min

طیبہ کی کہانی عدالت میں

Reading Time: 5 minutes

اے وحید مراد
یہ صرف طیبہ کی کہانی نہیں۔ اس ملک کے ہر دوسرے گھر اور کروڑوں بچوں کے حالات طیبہ سے زیادہ مختلف نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نوٹس لیا اور اب اس معصوم بچی کو انصاف مل جائے گا مگر اس فیصلے سے گھریلو تشدد کا شکار لاکھوں کم سن بچیوں کے روز و شب نہیں بدلیں گے۔ بدقسمتی یہی ہے ملک کی اعلی ترین عدالت کے احکامات کے بعد بھی نظام کو فرق نہیں پڑتا، صرف ایک فرد کو فائدہ ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد تمام چھوٹے بڑے ادارے متحرک ہوگئے۔
خواتین و حضرات سے بھرے کمرہ عدالت میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے طیبہ کے والد محمد اعظم سے سوالات پوچھے تو حقائق سامنے آگئے۔ نظام کا گندہ چہرہ تو سامنے آچکا کہ ایک ڈسٹرکٹ و سیشن جج کے گھر میں دس برس کی معصوم بچی سے کام لیا جا رہا تھا۔ یہ تو پکڑے جانے کی بات ہے وگرنہ عدالت جن جو فیشن ایبل این جی والی آنٹیوں سے بھری ہوئی تھی ان کے گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں اور ملازموں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ طیبہ کے والد اعظم نے عدالت کو بتایا، پاکستان کی آزادی کی خوشی والے دن اس کی پڑوسن نادرا نے معصوم طیبہ کا سودا صرف اٹھارہ ہزار پیشگی (ایڈوانس) دے کر کیا، تین ہزار ماہانہ تنخواہ طے کی گئی۔ بتایا تھا کہ طیبہ کو فیصل آباد میں ایک گھر میں معصوم بچے کو بہلانا ہوگا مگر دوماہ بعد معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں کام کر رہی ہے، والدین سے صرف دوبار فون پر بات کرائی گئی۔
چیف جسٹس نے ان پڑھ والدین سے پنجابی میں مکالمہ شروع کیا تو محمد اعظم کا کہنا تھا میرے تین بچے ہیں، طیبہ سب سے بڑی، مسرت سات سال کی اور بیٹے زین کی عمر چاربرس ہے، گزشتہ دنوں ٹی وی دیکھ کر پتہ چلا ہماری بیٹی سے مارپیٹ کی گئی ہے۔ نادرا بی بی سے پوچھا تو وہ علاقے کے بڑے زمیندار عثمان کھرل کی کار میں ہمیں لے کر اسلام آباد آگئی۔ یہاں ظہور نامی وکیل نے ہمیں کاغذ دیا کہ بیٹی چاہیے تو انگوٹھے لگاﺅ، ہمیں طیبہ کو لینا تھا صلح کرلی، ہمیں نہیں معلوم کس کو معاف کیاہے، کونسی تاریخ یا دن تھا، یاد نہیں۔ اگلے دن عدالت میں پیش ہوئے ، پانچ بجے طیبہ ہماری حوالے کی گئی تو وکیل برما چوک میں ایک بنگلے میں لے گیا جہاں فواد نامی فوجی کے زیرنگرانی رہے، وکیل نے ہمارے فون سے سم نکال لی اور پانچ دن کسی سے رابطہ نہ ہونے دیا۔ چھٹے دن فواد نے ہی پولیس کے حوالے کیاتو ہم نے بیان دیا کہ کسی کا دباﺅ نہیں۔
عدالت میں پولیس کے ڈی آئی جی نے بیان دیتے ہوئے کہا میڈیکل رپورٹ آگئی ہے، جس موبائل فون سے سب سے پہلے طیبہ کی تصاویر اور ویڈیو بنی وہ فرانزک لیب میں تجزیہ کیلئے بھیجا ہے، سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیو کا بھی تجزیہ کیا جارہاہے، جن فون نمبروں سے متعلقہ لوگوں کا آپس میں رابطہ تھا ان کا ڈیٹا اسپیشل انوسٹی گیٹیو یونٹ کے ایس پی اکھٹا کر رہے ہیں، مقدمہ طیبہ کی مدعیت میں مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیان کی روشنی میں درج کیا گیا ہے، خاتون نادرا بی بی اور طیبہ کے چچا اللہ دتہ کو تلاش کرکے بیان لینا ہے۔
سپریم کورٹ کو اسسٹنٹ کمشنر نشا اشتیاق نے بتایا کہ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج عبدالستار عیسانی کے دفتر میں موجود تھی جب پولیس نے طیبہ کو پیش کیا، مجھے جج صاحب نے زبانی کہا کہ اس کا بیان ریکارڈ کرلو۔ بچی طیبہ نے بیان میں کہا کہ خرم بھائی مجھے یہاں لائے ہیں، کام والی کا جھاڑو گم ہوگیا بعد میں مل بھی گیا مگر مجھے مار پڑ گئی تھی، اپنے گھر اور والدین کا کچھ معلوم نہیں۔ چیف جسٹس نے اسسٹنٹ کمشنر سے پوچھا کیا اس صورتحال میں آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ مقدمہ درج کرالیں؟۔ کمشنر نے جواب دیا مجھے جج صاحب نے جتنے احکامات دیے تھے ان پر عمل کیا۔
تھانہ انڈسٹریل ایریا آئی نائن کے انچارج انسپکٹر ملک خالد اعوان نے سپریم کورٹ میں بیان دیا۔ ان کا کہنا تھا 28 دسمبر کی رات دیر گئے سوشل میڈیا سے تصاویر ملیں اور ساتھ ہی ایک ایس ایم ایس بھی موصول ہوا جس میں طیبہ کی موجودگی والے گھر کا پتہ بھی فراہم کیا گیاتھا، ڈیوٹی افسر بھوایا مگر دروازہ نہ کھولا گیا، ہیومن رائٹس کمیشن کی میڈم رومانہ نے رابطہ کیاتو صبح خود گیا۔ گھر پر پولیس کانسٹیبل ابرار شاہ سے ملاقات ہوئی، اس سے جج راجا خرم کا فون نمبر لیا اور بتایا کہ طیبہ کو حوالے کیاجائے، وہاں سے اسے پمز ہسپتال لے کر گئے میڈیکل رپورٹ موجود ہے ۔ بچی کا بیان ریکارڈ کیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ وسیشن جج راجا آصف کی عدالت میں ملزمہ ماہین ظفر نے قبل ازگرفتاری ضمانت کرالی اور تین جنوری کو یہ ضمانت کنفرم بھی ہوگئی۔ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت سے روبکار آئی تو چائلڈ پروٹیکشن بیورو سے طیبہ کو لے کر پیش کیا جہاں والدین کے حوالے کیا گیا۔
وکیل طارق محمود نے کہا وہ ہیومن رائٹس کمیشن کے وکیل ہیں، طیبہ کا پہلا میڈیکل درست طور پر اس لیے نہ ہواکہ لکھا گیا تھا سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی ہے۔ اسی روز شام کو جب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کی گئی تو ان کے قواعد کے مطابق میڈیکل کرایا گیا وہ رپورٹ زیادہ تفصیلی اور درست ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا دوسری میڈیکل رپورٹ میں زیادہ تفصیل درج ہے کل بارہ زخم ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ماہرین کی رپورٹ سے ثابت ہے کہ بچی کو زخم آئے ہیںمگر سوال یہ ہے کہ زخم کیسے لگے؟۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا طیبہ کی عمر کتنی ہے یہ رپورٹ ابھی آنی ہے، نادرا کے ریکارڈ میں اعظم کے خاندان میں طیبہ کا سراغ نہیں ملتا۔مقدمے میں چارگواہ ماریہ، مجسٹریٹ نشا، خضر حیات اور حمیرا حیات ہیں۔
چیف جسٹس نے ڈی آئی جی پولیس کو کہا ذمہ دار ی کے ساتھ ذاتی طورپر تفتیش کریں، انتہائی دیانتداری اور شفاف طریقے سے تمام حقائق سامنے لائیں۔ ڈی آئی جی نے استدعا کی تمام لوگوں تک پہنچنے کیلئے تفتیش کرنے میں دوہفتے لگیں گے۔ وکیل طارق محمود نے کہا بچوں کے تحفظ کیلئے قانون موجود نہیں اس پر بھی ہدایات جاری کریں۔ چیف جسٹس نے کہا تفتیش کیلئے دس دن کی مہلت دیتے ہیں، عدالت میں کئی این جی اوز کی خواتین موجود ہیں، معاشرے میں بہتری کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیںمگر صرف سنجیدہ لوگوں کی معاونت درکارہے جو شہرت کے متمنی نہ ہوں۔ عدالت کو بتایاگیا راضی نامہ کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی منظورہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کوئی بھی آبزرویشن دینے سے اجتناب کررہے ہیں کہ کیس پراثرات نہ پڑیں اور تفتیش متاثر نہ ہو مگر یہ کیسے ہوگیا کہ سیشن جج نے والدین کا تعین ہونے سے قبل ہی طیبہ کی حوالگی کا فیصلہ کرلیا۔
عدالت میں راضی نامہ کرانے والے وکیل راجا ظہورالحسن کے کردار پر سوال اٹھے۔ عدالت میں طیبہ کی ماں ہونے کی دعویدار تین خواتین دستبردار ہوئیں اور کہا ان کے بچیاں گم ہیں مگر طیبہ ان کی بیٹی نہیں۔ عدالت نے طیبہ کو سویٹ ہوم کے حوالے کرتے ہوئے تفتیش مکمل ہونے کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے