"قرار تو بندر کی فطرت میں نہیں”
Reading Time: 8 minutesدیکھیے دیسی لبرلز وغیرہ سے تو میری چھیڑخانی بھی چلتی ہے اور کھری کھری بھی۔ اور یہ چلتی رہے گی۔ آج میں ان سے نہیں آپ سے بات کرنے لگا ہوں۔ اور اس کے باوجود کرنے لگا ہوں کہ بدتری اور ذلت میں اگر آپ کا تقابل ایک عام دیسی لبرل سے کیا جائے تو وہ معزز شہری اور آپ کسی خاکروب کے مقام پر بھی نظر نہیں آتے۔ میں آپ کو آئینہ دکھانے جا رہا ہوں تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ داڑھی منڈھانے اور پتلون پہننے سے "بندر” مسٹر و معزز نہیں بن جاتا، وہ بندر کا بندر ہی رہتا ہے۔ آپ میں اور بندر میں فرق یہ ہے کہ اسے چند ٹکے بٹورنے کے لئے "مسٹر جمہورا” کا روپ مداری دیتا ہے جبکہ آپ کو مسٹر جمہورا کا روپ کسی مداری نے نہیں خود آپ نے دیا ہے۔ گویا اس باب میں آپ بندر سے بھی نچلے درجے پر ہیں۔ بندر کو کوئی احساس کمتری نہیں، وہ اپنے بندر ہونے پر مطمئن ہے۔ وہ آپ ہیں جو اپنے مولوی ہونے پر احساس کمتری کا شکار ہوئے۔ کیسے ہوئے یہ اگلی سطور میں دیکھئے۔
جب نائن الیون ہوا تو آپ میں سے کچھ انہی دنوں بلوغ کی عمر کو پہنچے تھے اور کچھ نائن الیون کے ایک دو سال بعد بالغ ہوئے۔ نوعمری کے اس دور میں آپ نے خود کو مدرسے کی درسگاہ میں پایا۔ یہ وہ دن تھے جب امریکہ افغانستان میں فوجی اور پاکستان میں "فکری یلغار” کر چکا تھا۔ سی آئی اے کے ترتیب دئے گئے فکری جارحیت کے منصوبے میں تین چار طے شدہ اہداف تھے۔ یہ فکری جنگ سی آئی اے نے پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مورچوں سے مسلط کر رکھی تھی۔ حسن نثار اور نئے اسلام کے خالقین جیسے کرائے کے ٹٹو صبح شام ٹی وی سکرینوں پر سی آئی اے کی یہ جنگ لڑتے رہے۔ پہلی بات وہ یہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کی تاریخ خون آشامی سے بھری ہوئی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کی جنگوں میں 1400 سال کے دوران جتنے انسان مرے ہیں وہ انہی اہل مغرب کی صرف ایک جنگ، جی ہاں صرف ایک جنگ، یعنی دوسری جنگ عظیم سے کم ہیں۔ تاریخ انسانی کا یہ شرمناک ناک دھبہ صرف صلیبیوں کے ماتھے کا جھومر ہے کہ جب وہ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو انہوں نے تمام کے تمام مسلمان شہریوں، جن میں مرد و زن۔ بچے، جوان اور بوڑھے تمام کے تمام شامل تھے، ذبح کر ڈالے۔ اور ان نہتے شہریوں کو بالکل اسی طرح ذبح کیا جس طرح قصائی بکرے کو کرتا ہے۔ مگر حسن نثاروں سے وہ کہلواتے اور لکھواتے یہ رہے کہ مسلمان ایک سفاک قوم ہے اور اس کی تاریخ خون آشامی سے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا اور آپ نے یقین کرلیا۔
دوسری بات وہ یہ کرتے رہے کہ "مسلم وحدت” کا تصور باطل ہے۔ اصل وحدت تو دین براہیمی ہے۔ یعنی مسلمان، یہودی اور عیسائی ایک وحدت ہیں۔ آپ قرآن مجید سے براہ راست متصادم اس بکواس پر بھی یقین کر بیٹھے۔ آپ نے اللہ کی کتاب کے بجائے ان کی اس بکواس کو سینے سے لگا لیا۔ تیسری بات وہ یہ کرتے تھے کہ امام غزالی ایک علم دشمن شخص تھا۔ کیونکہ اس نے فلسفے کو کفر قرار دیا تھا جبکہ فلسفہ علوم کی ماں ہے۔ آپ دو منٹ میں ان کی اس بکواس کو اڑا سکتے تھے۔ آپ کہتے کہ چلو مان لیا امام غزالی فلسفے کو کفر قرار دینے کے سبب علم دشمن ہوئے۔ کیا آپ اپنی تاریخ کے اس سچ کو جھٹلا سکتے ہیں کہ آپ کا رینیسانس امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ پر کھڑا ہے ؟ کیا آپ اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں رینیسانس کے کے بعد آنے والے آپ کے فلاسفہ یونانی فلسفے کے بجائے غزالی کے چراغ کی روشنی میں آگے بڑھتے نظر آتے ہیں ؟ کیا آپ اس حقیقت کا انکار کر سکتے ہیں کہ یونانی فلسفے سے جان چھڑوانے کے معاملے میں خود آپ کے فلاسفہ غزالی کو اپنا محسن مانتے ہیں ؟
دوسری بات یہ کہ علم کے باب میں آپ مغرب کو ایک چیلنج دے کر دیکھئے۔ ان کا باپ بھی اس چیلنج سے جان چھڑا کر نہیں گزر سکتا۔ چیلنج یہ ہے کہ مغرب اپنے علمی ارتقاء میں مسلم اندلس کو بائی پاس کرکے دکھا دے۔ وہ یہ ثابت کردے ان کا تمامتر علم اپنی ارتقائی تاریخ میں مسلم اندلس سے ماخوذ نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا سچ ہے کہ نیشنل جیوگرافک جیسا چینل بھی آج سے اٹھارہ برس قبل تاریخی طور پر یہ تک ثابت کرچکا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی اساس اندلس سے ماخوذ علوم اور تجربات ہیں۔ وہ یہ تک ثابت کرچکے ہیں کہ آکسفورڈ کے بانی مسلم اندلس کے برطانوی سٹونٹس تھے۔
تیسری بات وہ یہ کرتے تھے کہ اقبال کا فلسفہ "فکری سرقہ” ہے۔ آپ نے اس پر بھی یقین کرلیا۔ چلو اقبال کا فسلفہ نطشے کا چربہ ہے۔ کیا افغان ملا کے حوالے سے اقبال کے خیالات بھی نطشے کا چربہ ہیں ؟ وہ خیالات جو اتنے ٹھوس ہیں کہ اقبال کی موت کے بعد پیدا ہونے والے افغان ملا بھی اس کی دلیل بن کر سامنے آتے چلے جا رہے ہیں۔ وہی ملا جس کے سامنے کل امریکی وزیر خارجہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ کسی سپر طاقت کے لئے تاریخ کا اس سے بے رحم منظر اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سپر طاقت کا وزیر خارجہ کل ایک ایسے معاہدے پر دستخط کر رہا تھا جس کی ہر شق کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے۔
"امریکہ امارت اسلامی افغانستان کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں طالبان کے نام سے ہی پکارتا ہے”
آپ اس کا مطلب سمجھتے ہیں ؟ میں سمجھاتا ہوں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں امریکہ اپنے صدر کا جانا اس کی توہین سمجھتا ہے۔ اگر کبھی صدیوں میں ایک بار چلا جائے تو یوں جاتا ہے جیسے کوئی سیٹھ مہاجرین کے کیمپ میں کمبل بانٹنے جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے کے صدور اور وزرائے اعظم سے امریکہ اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے معاملات کرتا ہے۔ یعنی ان ممالک کے سربراہان و سربراہان حکومت کو وہ اپنے وزیر خارجہ کے لیول پر رکھتا ہے۔ اگر تیسری دنیا کے ممالک کے وزیر خارجہ سے بات کرنی ہو تو امریکہ اپنا وزیر خارجہ نہیں بلکہ اسسٹنٹ وزیر خارجہ کو بھیجتا ہے۔ اگر ان ممالک کا صدر یا وزیر اعظم امریکہ چلا جائے تو امریکی صدر ملاقات کے لئے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت دیتا ہے اور انہیں وھائٹ ہاؤس کا وہ روایتی عشائیہ بھی پیش نہیں کرتا جو ذرا بہتر حالت والے ممالک کے سربراہان کو پیش کرنا وہاں کی روایت ہے۔ اور یہ ملاقات ہوتی بھی صرف فوٹو سیشن کے لئے ہے۔
اسی فرعون صفت سپر طاقت کا وہی وزیر خارجہ کل 30 ممالک کی گواہی میں ایک ایسے "افغان ملا” کے حضور کھڑا نظر آیا جسے خود معاہدے میں امریکہ "غیر ریاست” تسلیم کر رہا ہے۔ ذرا ماڈرن پولیٹکل تاریخ میں ڈھونڈ کر دکھائے کہ دنیا کا کونسا وزیر خارجہ ہے جس نے کسی "تنظیم” کے درجہ دوم کے لیڈر کے ساتھ بین الاقوامی معاہدہ سائن کیا ہو ؟ امریکہ اپنے جس وزیر خارجہ کو وزرائے اعظم کے لیول پر رکھتا ہے اسی وزیر خارجہ کو طالبان نے ملا ہیبت اللہ کے لیول پر نہیں بلکہ اس کمانڈر کے لیول پر رکھ کر دکھایا یا نہیں ؟ یہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسا حصہ جس پر آنے والی افغان نسلیں بھی فخر کیا کریں گی۔ اقبال کا پورا فلسفہ چھوڑئے، اس کا صرف افغان ملا والا ایک شعر آج کی تاریخ میں پورے مغربی فلسفے کو نگل گیا ہے۔
فکری یلغار کے ضمن میں حسن نثاروں سے اگلی بکواس وہ یہ کراتے رہے کہ "امت مسلمہ” نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ وہ بڑے تکبر کے ساتھ پوچھا کرتا تھا کہ کدھر ہے امت مسلمہ ؟ مجھے تو امت مسلمہ نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کا جواب بھی بہت آسان تھا۔ بالکل سامنے تھا مگر آپ تو نابالغ تھے، آپ خاک سمجھتے ؟ کیا اسامہ بن لادن کوئی درانی، قندھاری، غزنوی، کاکڑ، اچکزئی یا یوسفزئی تھا ؟ اپنے اس بے وطن مہمان کے لئے طالبان نے دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت اور اس کے 44 معاون ممالک سے تصادم کیوں مول لیا ؟ یہ ہوتی ہے "امت مسلمہ” وہی امت مسلمہ جو حسن نثار جیسے دلالوں کو نظر نہیں آتی۔
اسی ضمن میں امت مسلمہ کی موجودگی کا ایک تازہ ثبوت دکھاؤں ؟ پچھلے 19 سال کے دوران افغان قضیے میں بھارت کا قومی موقف آپ کے لئے کوئی راز تو نہیں ؟ ہم سب اس سے واقف ہیں۔ بھارت اس باب میں امریکہ کا سب سے بڑا حامی و مددگار رہا ہے۔ اس نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ آج وہ مکھن سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہے تو بھارت کا انٹیلی جنشیا ماتم کر رہا ہے۔ بھارت کی حکومت سکتے سے دوچار ہے۔ لیکن بھارت کا مسلمان کل کے دوحہ والے مناظر پر جشن منا رہے ہیں۔ وہ بھارت کے قومی موقف کے بجائے افغان طالبان کے ساتھ جذباتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ سرحدیں بھی "امت مسلمہ” کے وجود کو نہیں مٹاسکیں۔ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ اور وہ "جسد واحد” کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہی جسد واحد جسے امت مسلمہ کہتے ہیں۔ (اس پوسٹ کے پہلے کمنٹ میں ایک سکرین شاٹ دے رہا ہوں۔ جسے امت مسلمہ نظر نہیں آتی وہاں دیکھ لے)
فکری یلغار کے محاذ پر اس تمامتر پروپیگنڈے کا مقصد کیا تھا ؟ مسلمانوں کو انکی تاریخ سے بدظن کرنا اور مایوس کرنا۔ انہیں یہ باور کرانا کہ نہ ان کے پاس کوئی ہیرو ہے اور نہ ہی کوئی علمی سرمایہ فخر۔ تاکہ وہ اپنے وجود پر شرمندہ ہوکر مغربی چکاچوند کے اسیر ہوسکیں، فکری غلام بن سکیں۔ آپ پڑھ مدرسے میں رہے تھے۔ اور اس پروپیگنڈے کا ٹارگٹ بھی تھے۔ نتیجہ یہ کہ درجہ اولی سے دورہ حدیث تک پہنچتے پہنچتے آپ اس یلغار کا ذہنی طور پر شکار ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے بندر کی طرح "مسٹر جمہورا” کا گیٹ اپ اختیار کرنے کی ٹھان لی۔ آپ نے ٹوپی اتار کر وہ پھینکی۔ نائی سے کہا میری داڑھی فرنچ کٹ کردو۔ لنڈے میں جاکر جینز کی چار پتلونیں اور آٹھ شرٹس خرید لیں۔ درس نظامی کی ڈگری کی بنیاد پر یونیورسٹی کے کسی چھوٹے موٹے کورس کے لئے اپلائی کرلیا۔ اب آپ ایک ہاتھ میں سیل فون اور دوسرے ہاتھ میں گولڈ لیف کا پیکٹ و لائٹر پکڑ کر وہی حسن نثار والے لنڈے کے خیالات پیش کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ آپ "مقام تکریم” پر فائز ہوچکے ہیں تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔
آپ احساس کمتری کے مارے وہ مسخرے ہیں جو نہ تو مولوی رہا اور نہ ہی مسٹر بن سکا۔ آپ ایک کنگال و قلاش انسان نما وجود ہیں۔ میں چیلنج دیتا ہوں آپ کو کہ کوئی ایک چیز، جی ہاں ! کوئی ایک چیز بھی آپ کے پاس ایسی نہیں جسے آپ اپنا کہہ سکیں۔ جو اپنے خاندانی و علمی پس منظر پر شرمندہ ہوجائے اس سے بڑا بدبخت بھی کوئی ہوسکتا ہے ؟ آپ میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے اس باپ کو بھی اون نہیں کرتے جس کا وہ خون ہیں۔ آپ پر اعتبار کرنا، آپ پر بھروسہ کرنا، آپ پر یقین کرنا دنیا کی سب سے مہلک غلطی ہوگی۔ آپ سے میر جعفر بہتر تھا جو اپنی شناخت اور حلیے پر شرمندہ نہ تھا۔ فقط لالچی تھا۔ اس نے آپ کی طرح اپنی شناخت نہ مٹائی تھی۔ وہ بندر کی طرح "مسٹر جمہورا” نہیں بنا تھا۔ آپ لالچی بھی ہیں۔ اپنے وجود، تعلیم، خاندان، درسگاہ، لباس حتی کہ خوراک تک پر شرماتے ہیں۔ آپ وہ نفسیاتی مریض ہیں جسے کھجور اور انگور میں سے تحریر یا تقریر کے لئے کوئی ایک بطور موضوع چننے کا کہا جائے تو آپ انگور کا انتخاب کریں گے۔ کیونکہ آپ کو لگتا ہے، کھجور پر بات کرنے سے آدمی دقیانوس اور انگور پر بات کرنے سے "دانشور” لگتا ہے۔
مجھے یہ طویل تحریر اس لئے لکھنی پڑی کیونکہ کل شام سے آپ کھسیانی بلی کی طرح کھمبے نوچ رہے ہیں۔ آپ بار بار سوال اٹھا رہے ہیں کہ لوگ امریکی وزیر خارجہ کے ایک ملا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر خوش کیوں ہیں ؟ لوگ صلاح الدین ایوبی یا دیگر مسلم فاتحین کے حوالے کیوں دے رہے ہیں ؟ اور آپ کی یہ کیفیت اس لئے ہے کہ کیونکہ آپ نے تو یہ یقین کر رکھا تھا کہ مولوی ہونا اچھوت ہونا ہے اور مسٹر ہونے سے انسان برہمن بن جاتا ہے۔ آپ کے لئے یقین کرنا دشوار ہورہا ہے کہ کسی دستار فضیلت کے آگے امریکی پتلون ہاتھ باندھ کر بھی کھڑی ہوسکتی ہے۔ مگر میری یہ کیفیت بھی کیا عجیب کیفیت ہے کہ یہ طویل تحریر لکھنے کے باوجود میں یہ اطمینان نہیں کرسکتا کہ اب آپ کو قرار آجائے گا۔ کیونکہ قرار تو بندر کی فطرت میں نہیں۔