حامد میر سوال کا مجرم ہے
Reading Time: 4 minutesیعنی ایک احمقانہ اور ضدی جاہلیت کا بیانیہ یہ ہے کہ سوال بھی وہ پوچھیں جو ہمیں اچھا لگے اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ہم اپنی تربیت کے مطابق سلوک کریں گے۔
مولانا طارق جمیل صاحب کا زہد و تقویٰ تو ایک بہانہ ٹھہرا ورنہ اسی الیکٹرانک میڈیا کے گماشتوں نے تو اشارہ آبرو پاتے ہی بعض سیاسی رہنماؤں کی خواتین تو کیا، تڑپتے ہوئے جسموں اور الوداعی سانسوں تک کو نہیں چھوڑا تھا لیکن مولانا طارق جمیل جو ایک افسوسناک صورتحال میں خود کو پوری طرح سیاسی عمل کا حصہ بنا چکے ہیں، سے سوال کرنا قابل تعزیر جرم ٹھہرا۔
حامد میر نے فقط اس سوال کو وضاحت طلبی کے ساتھ دہرایا جو مولانا طارق جمیل نے وزیراعظم عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے قدرے جذباتی ہو کرعوام اور میڈیا پر جھوٹ کا الزام بھی ساتھ گھڑ دیا تھا۔
یہ یقینًا مولانا طارق جمیل کا بنیادی اور انسانی حق ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر کو پسند کریں اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کھل کر بآواز بلند کریں۔
وہ کسی بھی لیڈر یا فرد کی خوبیاں بھی گنوا سکتے ہیں۔ اس کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کرسکتے ہیں اور اس سے اُمیدیں اور توقعات بھی وابستہ کرسکتے ہیں لیکن اس کے بعد آپ دوسرے شخص (خواہ وہ سیاسی کارکن ہو یا صحافی ) کا یہ حق بھی نہیں چھین سکتے کہ وہ سوال اُٹھائے۔
یہی جرم ایک صحافی حامد میر نے کیا اور پھر وہی وباء پھوٹ پڑی جو گزشتہ ایک عشرے سے اس بدنصیب وطن کی تہذیب کے شجر کو دیمک کی مانند نہ صرف چاٹ رہی بلکہ اسے ہر حوالے سے بے ننگ و نام کر رہی۔
یہی وہ تعفن زدہ لیکن نئے تہذیب کی وباء تھی جو کنٹینر سے پھوٹی تو اردگرد کھڑے تماش بینوں کی زبان اور ذہن پر ایسا زہر چھڑکا جس سے کسی مخالف کا حرف ولفظ یا قلم تو درکنار اپنے اجداد کی عزتوں کو بچانا بھی مشکل ٹھہرا۔
رہی بات مولانا طارق جمیل کے حوالے سے تو یقینًا وہ ایک متقی عالم دین ہیں اور اس حیثیت سے ان کا احترام لازم ہے لیکن جب وہ سیاسی شخصیات کے حوالے سے تنازعے میں الجھنے اور رائے عامہ کے مخالف سمت میں تیرنے پر کمر بستہ بھی ہوں تو موجوں کا تلاطم اور متضاد سمت میں بہاؤ کی طاقت جیسے حقائق کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں جو مولانا طارق جمیل صاحب کے لیے بہرصورت تھکاوٹ اور پریشانی کا باعث بنتے رہیں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس میں بُرا ماننے کی کیا بات ہے کہ مولانا صاحب نے ایک الزام لگایا اور ایک صحافی (حامد میر) نے اس حوالے سے وضاحت مانگی کیونکہ جس پیشے (صحافت ) سے وہ وابستہ ہیں اسی پیشے کا ذکر مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنے متنازع بیان میں کیا تھا تاہم مولانا طارق جمیل کی بصیرت سے ہرگز انکار نہیں کہ اُنھوں نے فوری طور پر اپنے الزام پر نہ صرف معذرت کرلی بلکہ معافی بھی مانگی جو یقینًا ایک قابل ستائش عمل ہے، لیکن اس کے بعد حسب معمول اور حسب توقع سوشل میڈیا کے میدان کارزار میں وہ مجاہدین سربکف ہو کر اُترے جن کی سیاسی تربیت اور اُٹھان ایک بے بنیاد بیانیے اور حقائق سے لاعلم جذباتیت سے تخلیق پائی تھی ۔
میں نہ تو حامد میر کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں اور نہ ہی ان سے کسی قریبی تعلق کا دعویدار ہوں لیکن الیکٹرانک میڈیا کی ہڑبونگ سے بہت پہلے جب پرنٹ میڈیا ہی صحافت کا مرکز و محور ہوا کرتا تھا تب بھی وہ ایک انتھک صحافتی اور قلمی مزدور کی حیثیت سے جانا پہچانا نام بن چکے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جدید تراش خراش کا سوٹ پہن کر نہ اچانک کسی سکرین پر نمودار ہو کر ’سینئیر تجزیہ کار‘ بن بیٹھے اور نہ ہی صحافتی اقدار سے ناشناسا ہو کر ہذیان بکنے لگے بلکہ اس دشت کی سیاحی میں ایک عمر گزار دی اور اسی تجربے نے کسی حد تک انہیں تہذیب اور شائستگی بھی سکھا دی۔ اس لیے ان کا تعلق باد و باراں سے بچے اس چھوٹی سی صحافتی لاٹ سے ہے جنہیں صحافی کہنا کم از کم جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتا۔
ایک پیشہ ور صحافی اپنا سوال ہمیشہ دوسروں کے قول و فعل سے تراشتا ہے لیکن موجودہ دور کی حرماں نصیب صحافت کا المیّہ دیکھیے کہ ایک بد بخت طبقہ بضد ہے کہ صحافتی اقدار کو بھی ہماری خواہشات کے دائرے میں ہی مقّید رکھا جائے اور زبان و قلم کو ہمارے مخالفین کے خلاف گالم گلوچ اور بہتان طرازی جبکہ ہمارے ممدوح کے حوالے سے صرف مدح و قصیدہ تک محدود رکھا جائے۔
تو عرض یہ ہے کہ نہیں جناب ایسا ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ صحافت کی اپنی تاریخ ، اقدار اور روایات ہیں اور اسے صرف وہی لوگ نبھا سکتے ہیں جو حرف و لفظ کی حرمت سے آگاہ بھی ہوں ، صحافت کے مزاج شناس بھی ہوں اور اپنے ضمیر کی لاش کو کندھا دینے پر تیار بھی نہ ہوں۔
رہی دوسروں کی خواہشات اور اپنے مفادات کے مطابق صحافت کرنا تو آج کل ایسے لوگوں کی کمی ہرگز نہیں حتیٰ کہ بعض حضرات تو معمولی سی لطف و کرم پر بھی دو گز قصیدہ لکھ مارنے کو ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں لیکن اس مکروہ عمل کو کم از کم صحافت کے نام سے نہیں بلکہ کسی اور نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
وہ جو مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ تکرار کے ساتھ لکھا ہے کہ اس کے لیے پشتو میں بہت بُرا لفظ ہے۔