کالم

کالم نگاروں کے حق میں ایک کالم

مئی 20, 2020 3 min

کالم نگاروں کے حق میں ایک کالم

Reading Time: 3 minutes

ذہن میں روشنی اور ہاتھ میں قلم یقینا اللہ تعالی کی شاندار نعمتوں میں سے ایک ہے لیکن جب عملی طور پر آپ اس کا اظہار کرنے لگیں تو سچائی سے رشتہ جوڑ کر ایک لکھنے والا ہی جانتا ھے کہ اسے کس طرح کی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر خصوصی طور پر جب آپ کا تعلق صحافت کے شعبے سے ہو کیونکہ یہاں آپ سیاسی جماعتوں پر بھی تنقید کرتے ہیں، پارٹی رہنماوں کو بھی ٹوکتے ہیں، حکومت سے بھی الجھتے ہیں، کارکردگی پر سوال بھی اٹھاتے ہیں، کرپشن، اقرباء پروری اور مس منیجمنٹ پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں، جھوٹ کو بھی پکڑتے ہیں، وعدے بھی یاد دلاتے ہیں، عوام کے احتجاج اور چیخ و پکار کو بھی حرف و لفظ فراہم کرتے ہیں اور شخصی کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھتے ہیں۔


اس دوران ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کے کارکنان اور لیڈر آپ سے توقع اور تقاضا کرتے ہیں کہ جب ہمارے حوالے سے بات کریں تو چین ہی چین لکھیں یا ’باقی یہاں پر خیر خیریت ہے‘ سے آگے نہ بڑھیں۔ ساتھ میں یہ تقاضا الگ سے ہونے لگتا ہے کہ ہمارے سیاسی مخالفین کے نہ صرف کپڑے اتارتے رہیں بلکہ چمڑی بھی ادھیڑتے رہیں۔


اگر آپ کا تعلق صحافت خصوصا کالم نگاری کے شعبے سے ھے تو آپ کا فرض بنتا ھے کہ آپ جمہوری اقدار اور سسٹم پر گہری نگاہ رکھیں گے۔ سو جہاں بھی اور جو کوئی بھی جمہوری عمل سے روگردانی کرے یا اسے نقصان پہنچانے کا سبب بنے تو آپ کے قلم کا ساکت ہونا یا خاموش رھنا بجائے خود جرم کے زمرے میں آتا ھے .لیکن ایک لکھنے والا ھی جانتا ھے کہ آمریتوں سے مسلسل بر سر پیکار نا تواں جمہوریت کے حامل ملک میں اس طرح کے سوال اٹھانا کتنا دشوار ہوتا ہے . کیونکہ ایک سچا لکھاری ھی جانتا ھے کہ صحافت کے تنے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے معمولی سی کوتاھی یا غفلت کے نتائج کتنے بھیانک ہوتے ہیں. لیکن باھر بیٹھے ” تماش بین ” آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ ھمارے تمام تر جذبات (خواہ وہ بے سر و پا ھی کیوں نہ ہوں) اپنے نام اور اپنے قلم کے ساتھ اسی طرح پیش کریں جیسا ھم سوچتے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری بھی خود ھی اٹھائیں اور نتائج بھی خود ہی بھگتیں۔


اگر آپ ایک لکھاری ہیں تو انسانی اور بنیادی حقوق کے حوالے سے آپ کو حد درجہ حساس اور با خبر ہونا چاہئے۔ ساتھ ساتھ آپ معاشرے کو موٹیویٹ بھی کریں اور منفی عوامل پر تنقید سے بھی گریز نہ کریں لیکن جب اس حوالے سے لکھیں تو معاشرے کا ایک با اثر طبقہ نہ صرف آپ کو آڑے ھاتھوں لیتا ھے بلکہ باقاعدہ فون کر کے دھمکی آمیز لہجے میں ڈکٹیشن بھی دینے لگتا ہے۔


بحیثیت ایک لکھاری کھبی آپ لبرلز پر تنقید کریں تو ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ھے اور پھر آپ جاھل پسماندہ طالبان اور سہولت کار ھی ٹھرتے ہیں (میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق سب سے زیادہ عدم برداشت اسی طبقے میں ہے)
کھبی آپ کا قلم عسکریت پسندوں اور دھشت گردی کے خلاف حرف و لفظ اگلے تو خود کش حملہ اور بچوں کا اغوا تو معمول کا فون کال ہی سمجھیں۔


عمران خان کے پیروکار تو بد تہذیبی کے حوالے سے مفت میں بدنام ہیں ورنہ نو زائیدہ انقلابیوں سے کبھی واسطہ پڑے تو پی ٹی آئی کے کارکن ان کے سامنے فرشتوں جیسے معصوم لگنے لگتے ہیں۔
بھر حال یہ ھم لکھنے والوں کی مختصر سی روداد ھے لیکن عام لوگ ھمیں مشہور آدمی سمجھ کر رشک کرتے لگتے ہیں لیکن انہیں کیا معلوم کہ ہم کس دہری اذیت میں گرفتار ہیں کیونکہ نہ لکھیں تو اپنی فطری ذمہ داریوں سے ایک مجرمانہ غفلت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں اور اگر لکھیں تو قدم قدم پر ان عذابوں سے واسطہ پڑتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے