شوگر سکینڈل اور جنتا کا ناچ
Reading Time: 2 minutesتحریک انصاف جس چیز کو اپنی سب سے بڑی طاقت سمجھ رہی ہے وہی اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ ان کو یقین ہے کہ اصل حکومت سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے، اصل لڑائی ٹوئٹر پر ہوتی ہے۔
شوگر سکینڈل پر جو کمیشن بنایا گیا ہے وہ بے معنی ہے کیونکہ شوگر ملز پبلک لمیٹیڈ کمپنیاں یا پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جن کا ایک ایکسٹرنل اور انٹرنل آڈٹ کا سسٹم ہے۔ فرگوسن جیسی کمپنیاں انہیں بتاتی ہیں کہ کہاں کہاں کون کون سے کاغذ لگانے ہیں، سیلز ٹیکس کے آڈٹ بھی روٹین ہیں، ایس ای سی پی بھی ان کے معاملات پر نظر رکھتی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں رجسٹر ہونے کے لیے بھی اپنے حسابات شائع کرانے ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ ڈائریکٹ ٹیکس ریٹ یعنی 45 فیصد بھی انہی پر ہے، تو کیا یہ ٹیکس چور نہیں ہیں؟
ٹیکس چوری کلچر ہے یہاں کا، اس کے لیے طریقے حکومتیں خود رکھتی ہیں سسٹم میں، زرعی آمدن کی چھوٹ جیسے طریقے، باہر سے بغیر کسی خونی رشتے کے پیسے منگوا کر سفید کرنے والے راستے، یہ راستے کبھی بند نہیں ہوتے، کسی کی اتنی جرات نہیں ہے کہ انہیں بند کرے، کیونکہ حکومتیں جانتی ہیں کہ ہمارے پاس اتنی فسکل سپیس ہی نہیں ہے کہ ہم اپنے عوام کے منہ میں کچھ ڈال سکیں۔ اگر کالا پیسہ بھی سسٹم سے نکل گیا تو ساری ذمہ داری حکومت پر آئی گی اور حکومت یہ ذمہ داری لینا نہیں چاہتی۔ ایکسپورٹ ہوئی تو اس کی اجازت ای سی سی اور کابینہ نے دی، لوکل مارکیٹ میں ریٹ بڑھا تو اس کو روکنا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی، شوگر مل والے نے فرنٹ مین رکھا ہوا ہوتا ہے جسے آڑھتی کہتے ہیں، گیٹ پاس کٹتا ہے، مال فیکٹری سے نکلتا ہے، بینک کے پاس اطلاع جاتی ہے کیونکہ سٹاک پلیج ہوتا ہے، سیلز ٹیکس انوائس بنتی ہے، آڑھتی ایک پرسینٹ کمیشن کا سرٹیفیکیٹ لیتا ہے اور اس پر ایٹ سورس بارہ پرسینٹ ٹیکس بھی شوگر مل سے کٹوا لیتا ہے اور یوں اس کی کالی کمائی پر سفید رنگ ہوجاتا ہے۔
پچاس روپے والی چینی جب آڑھتی کے گودام میں آتی ہے تو وہ شارٹیج پیدا کرتا ہے، غلہ منڈی میں افواہ پھیلتی ہے کہ گنج شوگر مل یا اتفاق مال نہیں بیچ رہی،غلہ منڈی والا مال شارٹ کرتا ہے اور سٹاک کرتا ہے،طلب بڑھتی ہے،اسی دن شام کو دو روپے ریٹ چڑھ جاتا ہے، جی ایم فنانشل کنٹرولر کو اور فنانشل کنٹرولر صاجب کو واٹس ایپ کرتا ہے،پانچ دن میں ریٹ دس روپے چڑھتا ہے،باس کہتا ہے سو دو سو ٹن مال اس ریٹ پر نکال دو،کیش ٹرانزیکشن ہوتی ہے،حکومت پانچ ہزار کا نوٹ اسی لئے بند نہیں کرتی۔
آپ شوگر سیکنڈل کمیشن رپورٹ میں بس آئی واش دیکھیں گے۔
لیکن یقین رکھیں یوتھئے اس پر ناچیں گے اور ساتھ بیک گراوُنڈ میں نیلو شان ناچ رہی ہوگی،رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے،عمران خان نے تاریخ بنا دی، تنخواہ دار لونڈے ٹویٹر بھر دیں گے اور پانچ روز بعد ایک نیا نان ایشو سامنے آئے گا، روُف کلاسرہ بھرائی اور کامران خان زکام زدہ آواز میں اپنی اپنی کہانی بیچے گا، پہلا کہے گا لُٹے گئے اور شیکسپئیر نے اپنی کتاب گینڈے پن کے سترہ اصول کے صفحہ نمبر گیارہ پر ایک داستان لکھی تھی سنائے گا، دوسرا بولے گا تاریخ ششدر رہ گئی، آسمان نے یہ نظارہ بھی دیکھنا تھا،معیشت تن کر کھڑی ہوگئی، اب پاکستان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
ناچو
ناچو
ناچو
سیلم صافی کہے گا
ان کتوں کے سامنے نہیں ناچنا بسنتی
اور جنتا کا نشہ پورا ہوجائے گا۔