کالم

فریق بند گلی میں ہیں اور

جون 23, 2020 3 min

فریق بند گلی میں ہیں اور

Reading Time: 3 minutes

سیاسی صورتحال دلچسپ رنگ اختیار کر گئی ہے، ایک طرف نون لیگ کے خواجہ آصف نے پہلا فیلر چھوڑا کہ چھ ماہ کی حکومت بنائی جائے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کون بنائے تو بولے پارلیمنٹ بنائے جو کہ بذات خود ایک مضحکہ خیز بات تھی، دوسری طرف فواد چوہدری کا پی ٹی آئی کی اندرونی سیاست پر تبصرہ اور چھ ماہ کی ڈیڈ لائن کا تذکرہ، زرداری صاحب سے منسوب یہ بیان کہ کچھ عرصے میں معاملات ناقابل ازالہ ہوجائیں گے۔
خواحہ آصف نے اگلے ہی روز ایک اور انٹرویو میں یہ بات کہی کہ پی ٹی آئی اپنے اندر سے ہی متبادل ڈھونڈے۔
اس بات میں قطعی طور پر کوئی شبہ نہیں کہ بادشاہ گر بچہ جمہورا کی کارکردگی سے مایوس ہیں، اور یہ مایوسی ہمہ جہتی ہے، یعنی معاملہ صرف معاشی معاملات کا تیزی سے تہہ و بالا ہونا نہیں بلکہ گورننس کے شدید مسائل درپیش ہیں، کووڈ میں جس طرح سے پرائیوٹ ہسپتال والوں کو بے لگام چھوڑا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

چینی، پیٹرول، اوور سیز پاکستانیوں کی بیرون ملک کسمپرسی، سیاسی حلیفوں کی بے اطمینانی الغرض ایک انبوہ کثیر ہے جس کی اوٹ سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔


نئے مالی سال کا پہلا کواٹر شاید پاکستان کی تاریخ کا بدترین کواٹر ہوگا جس میں ٹیکس ریکوری پچاس فیصد کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے اور چھ سو ارب کا یہ شارٹ فال ہر معاشی منصوبے کو بہا لے جائے گا۔
آئیے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ میں کیا منظر نامے ہوسکتے پیں۔


ان ہاوُس تبدیلی:
پی ٹی آئی کے اسد عمر اور شاہ محمود اس وقت زبردست لابنگ کرتے نظر آ رہے ہیں، اسد عمر اس معاملے میں شاہ محمود سے آگے ہیں کیونکہ ایک تو ان کا خاندانی پس منظر ان کے لیے اثاثہ ہے دوسرا نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول کے اجلاسوں میں وہ فوکل پرسن ہیں، تیسرا فائدہ ان کو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز کی نظر میں وہ بھی عمران خان کی طرح ایمانداری کی ایک مثال ہیں، آج کل وہ جگہ جگہ عمران خان کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں تاکہ عمران لوورز کی ہمدردیاں شاہ محمود کی بجائے ان کے ساتھ رہیں،اسد عمر کو بادشاہ گر حلقوں کی زیادہ حمایت حاصل ہے جبکہ شاہ محمود کے حمایتی ریٹائر ہو رہے ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بھی ان ہاوُس تبدیلی آتی ہے تو کیا اس سے معاملات بہتری کی طرف جائیں گے؟
میری نظر میں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا،اسد عمر اور شاہ محمود پبلک فورمز میں اتنے احمق تو ثابت نہیں ہوں گے جتنے ان کے لیڈر ہیں لیکن گورننس اور معیشت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکیں گے کیونکہ وہ اپنے اوپر سے سلیکٹ کا لیبل نہیں ہٹا سکیں گے اور دشنام طرازی کا رخ بادشاہ گر حلقوں کی طرف رہے گا لیکن اس بات کا امکان ہے کہ سیاسی محاذ پر وہ بہتری لا سکیں، اپوزیشن اور اتحادیوں سے اپنے تعلقات بہتر کر سکیں کیونکہ عمران خان کی نرگسیت ان کے اس عمل کی بڑی رکاوٹ رہی ہے،لیکن اپوزیشن سے تعلقات بہتر کرنے میں سب سے بڑی اڑچن پی ٹی آئی کے ہارڈ کور سپورٹرز ثابت ہو سکتے ہیں۔


قومی حکومت:
اسی اسمبلی کے منتخب ارکان کو لے کر ایک ایسی کابینہ بنائی جائے جس میں سب جماعتوں کے اہل افراد ہوں اور مشکل قومی مسائل کے حل پر اتفاق رائے حاصل کیا جائے،بظاہر اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ عمران خان خود ثابت ہوں گے کیونکہ ان کی سیاری سیاست لا کے اردگرد گھومتی جس مںں علی اللہ کی نوبت ہی نہیں آتی۔
اسمبلیاں توڑ کر قومی حکومت بنانا ماورا آئین قدم ہوگا اور یہ نہایت پیچیدہ عمل ہوسکتا ہے۔
ان ہاوُس تبدیلی:
نون اور پی پی کی مخلوط حکومت جس میں باقی چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہوں اور ایک آدھ ووٹ کی اکثریت سے باقی اڑھائی سال حکومت کریں۔
اس سے بھی کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوگی اور یہ عمران خان کی نیم مردہ سیاست کے لیے ایک ٹانک ثابت ہوگی اور ایک بار ہھر جلسے اور دھرنے اور معیشت کا سوا ستیاناس سے ڈیڑھ ستیاناس ہوجائے گا۔
سیاست کی یہ گتھی آسانی سے سلجھتی نظر نہیں آ رہی اور تمام فریق بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے