کالم

قومی ادارے برائے حوصلہ شکنی

اگست 11, 2020 3 min

قومی ادارے برائے حوصلہ شکنی

Reading Time: 3 minutes

باپ کو کہو رکشہ لے دیں ، یہ پڑھنا لکھنا تمارے بس کا کھیل نہیں؛ نصاب سے تھوڑا ہٹ کے سوال کرنے پر ماسٹر صاحب سیخ پا ہو چکے تھے، یہ سننا روز کا معمول تھا۔ جو سوال کرتا اسے اینکرنگ یا سیاست جوائن کرنے کا مفت مشورہ دے دیا جاتا۔


یہ باتیں ہر متوسط طبقے کے طالبعلم کو جھیلنی پڑتی ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ بے موسمی پھل کی طرح ہر کلاس روم میں اگتی رہتی ہیں۔ غلطی سے بھی اگر آپ نے مستقبل کے کسی خواب کی نشاندہی کر دی تو پھر پہلے پہل آپ کا نام مطلوبہ شعبہ سے جوڑتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لیے آپ کا عرف عام بنا دیا جائے گا جیسا کہ ( بیوروکریٹ ، اینکر، سیاست دان، فوجی) وغیرہ۔ اور پھر یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، سٹاف روم میں بیٹھ کر اساتذہ صاحبان تمام جملہ امور کو ایک طرف رکھ کر اس اجتماعی دلچسپی کے مسئلے کو کبھی مرنے نہیں دیں گے۔ سگریٹ کے ہر کش کے ساتھ بچوں کے سپنوں کو مذاق میں اڑاتے جاتے ہیں۔

گھر سے بڑے سہانے خواب لیے جب طالب علم سکول پہنچیں گے تو وہاں پڑھانے سے پہلے انہیں سکول کا گند صاف کرنے کے فرائض سونپ دیں گے۔ جان بخشی اسی کی ہو گی جس کی دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کوڑے سے بھری ہوں۔ یہ ایک سرکاری سکول میں بچے کے دن کا آغاز ہوتا ہے۔
حوصلہ شکنی کے ان اداروں میں کچھ استاتذہ کا کام صرف بچوں پر اپنے ڈنڈے کی وحشت بٹھانا ہوتی ہے جس پر بچے اسے استاد سے زیادہ علاقہ ایس ایچ او کی نگاہ سے گھور رہے ہوتے ہیں۔

بعض سکولوں میں اگر آپ نے واٹر کولر کے بغیر فلٹر کیے پانی کو پینے کی کوشش کی تو سکول انتظامیہ آپ کے تعاقب پر ساری نفری لگا دیتی ہے اور سب آپ کو گستاخ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ آپ نے ٹھنڈا پانی جو نوش فرمایا تھا۔

یہ کہانی سکول ، کالج سے ہوتی ہوئی جب یونیورسٹی پہنچتی ہے تو وہاں ایسے نام نہاد دانشور ٹکرتے ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کی چاردیواری اور کتابوں کے ایڈیشن سے باہر نکل کر عملی دنیا کی سنگینیاں نہیں دیکھی ہوتیں ، یہ سب سے پہلے تو آپ کو یہ کہہ کر اپنی دھاک بٹھائیں گے کہ ہم نے اس سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے لہذا ہم سے زیادہ کامیاب پروفیشنل بننا آپ کے لیے ناممکن ہے۔


پی ایچ ڈی سے مرعوب ہو کر دور دراز کے علاقوں سے آنے والے طلبہ اگلے چار پانچ سال تو عملی زندگی کا سوچنا بھی چھوڑ دیتے ہیں اور جو کوئی ایک آدھ کوشش کرتا ہے اسے باقی ہجوم نفسیاتی مریض اور نالائق کہہ کر ایک طرف لگا دیتا ہے اور یوں ٹیلنٹ ہمارے کلاس رومز میں خود کشی پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قارئین! یہ ایک انتہائی وسیع موضوع ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات بہت شفیق، فرشتہ صفت اساتذہ بھی میسر آ جاتے ہیں لیکن ان کو مایوسیوں کے بازاروں میں سے ڈھونڈنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں اور ایسے لوگ عموماً پڑھنے پڑھانے کو خیر باد کہہ دیتے ہیں کیونکہ باقی کے لوگ باونڈری لائنز کو کبھی کراس نہیں کرنے دیتے۔

پاکستان کے چند ایک اچھے سکول سسٹمز سمیت دنیا بھر میں بچوں کی مستقبل کے حوالے سے ذہن سازی کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں پیدائش کے دن گھر میں کیا پکانا ہے سے لے کر پڑھنے اور مستقبل میں کیا بننا ہے کی پالیسی سے اس فریق کو باہر کر دیا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔


معذرت کے ساتھ، ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے تعلیمی ادارے حوصلہ شکنی کی درسگاہیں بن چکے ہیں جب تک اس قومی بحران پر ہنگامی پالیسی نہیں بنائی جائے گی تب تک شجرکاری مہمیں بھی نقب زنوں کی طرح بدتہذیب ہجوم سے لٹتی رہیں گی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے