متحرک ڈپٹی کمشنر، وائرلیس ایڈمنسٹریشن
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے معروف بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ پڑھتے ہوئے میں سوچا کرتا تھا کیا اس طرح کا ڈپٹی کمشنر سچ میں بھی ہو سکتا ہے؟ کیا آج کے دور میں بیوروکریسی میں ایسا شخص سما سکتا ہے ۔ پھر ایک دن مجھے اپنے سوالوں کا جواب اُس وقت ملا جب میں ایک ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بیٹھا تھا ۔ ایک اسی سال کا بزرگ گرجدار آواز میں غصہ کرتے ڈی سی کے کمرے میں پہنچ چکے تھے ۔ ڈی سی سامنے یوں سہمے خاموش بیٹھے تھے جیسے اُنہوں نے بزرگ کا قرض دینا ہو ۔ بزرگ بولتے گئے، انتظامیہ پر غصہ نکالتے گئے۔ ان کی باتوں میں غصے کیساتھ بطور عام شہری کا کرب بھی نمایاں تھا ۔
بزرگ کی انٹری دیکھ کر میں سمجھا ڈپٹی کمشنر ابھی انہیں گرفتار کروا دیں گے لیکن ڈی سی صاحب خاموشی سے سب سنتے گئے ۔ بزرگ خاموش ہوئے تو ان کے لئے چائے منگوائی گئی ، بٹھایا گیا ، اور پورا ماجرا سننے پر پتہ چلا کسی پولیس اہلکار نے بابا جی کیساتھ بدتمیزی کر دی تھی ۔
قارئین! یہ ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات کے دفتر کا ایک منظر تھا۔ٹوئٹر پر نام کمانے والے ڈی سی کو نیویارک میں بیٹھے حمید علی نے گولڑہ اسلام آباد میں کسی مسئلے کی طرف نشاندہی کی تو وائرلیس ایڈمینسٹریشن فوری طو پر متحرک ہو گئی ، اگلے دو منٹ میں متعلقہ ایس ڈی پی او کو معاملہ ریفر بھی ہو چکا تھا۔
عوام پر رعب و دبدبے کے لیے استعمال ہونے والی ضلعی انتظامیہ عوام کو ہر وقت میسر ہونے لگی ہے ، سول سروس اپنے حقیقی معنوں میں اگر کسی نے دیکھنی ہے تو ڈی سی اسلام آباد کی عوام کے لئیے ہر وقت دستیابی کو دیکھ لے۔
ٹوئٹر اور دفتر میں عوام کے لئیے ہر وقت دستیابی کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے جو کہ کافی حد تک کار آمد ثابت ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کا ڈپٹی کمشنر آفس اس سے پہلے کبھی بھی اس طرح سے عوام کےلئیے دستیاب قطعی طور پر نہیں تھا ۔
انسان ہونے کے ناطے کئی غلطیاں ، کوتاہیاں بھی سرزد ہو جاتی ہیں لیکن موجودہ انتظامیہ وائرلیس سسٹم کے تحت کام کرتی ہے ، جسکے لئیے کسی پاس ورڈ کی بھی آپ کو ضرورت نہیں پڑتی ہے۔
آپ کو کوئی مسلۂ تو ٹوئٹر پر ڈی سی اسلام آباد کو مینشن کریں ، ایک اندازے کیمطابق پچانوے فیصد لوگوں کو وہ فوری طور پر ریپلائی کر کے مسائل کے حل کی کوشش کرتے ہیں باقی پانچ فیصد میں شاید کچھ مصلحتیں یا سسٹم آڑے آتا ہو لیکن انتظامیہ کا فوری طور پر ون فائیو سے بھی تیز ری ایکشن سائل کا حوصلہ بڑھا دیتا ہے۔
پاکستان میں وائرلیس ایڈمینسٹریشن کے بانی ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے ملک بھر کے ٹائی والے بابو کے نام سے مشہور ایڈمینسٹریشن کو ڈائریکٹ پبلک ڈیلنگ کا ماڈل دیا ہے جو کہ ابھی تک صرف اسلام آباد میں ہی نظر آتا ہے، ملک کے دیگر اضلاع میں عام آدمی کے لئیے ڈی سی یا ڈی پی او تو دور کی بات انکے آپریٹرز کی بھی اپنی الگ تھلگ ٹھاٹھ ہوتی ہے۔پنجاب کے کسی ڈی سی آفس کا وزٹ کریں تو برطانوی راج کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
قصہ مختصر ! وائر لیس ایڈمینسٹریشن کو بھی ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ، شہر پر قبضہ مافیا کی یلغار سب سے بڑا چیلنج ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ اس مافیا کیخلاف بھی بلا تفریق کاروائی ہو گی لیکن عوام کے لئیے ہر وقت ، بر وقت دستیابی پر وائرلیس ایڈمینسٹریشن کو داد دینا بنتی ہے۔