ساری جیتیں ایک جیسی ساری ماتیں ایک سی
Reading Time: 4 minutesپرویت روجانا پھروک کا تعلق ایک چینی نژاد تھائی خاندان سے ہے، اس کا والد تھائی لینڈ کا ایک اعلٰی درجے کا سفارتکار تھا ،اس لیے پرویت روجانا پھروک کے بچپن کا ذیادہ حصّہ برسلز اور منیلا میں گزرا ۔
سنہ 1990 کے آس پاس اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے سوشل انتھرایالوجی میں ماسٹر کیا اور کچھ عرصہ بعد یعنی 1991 میں تھائی لینڈ کے بااثر اخبار نیشن سے بحیثیت کالم نگار وابستہ ہوئے۔
پرویت روجانا پھروک کی تحریروں، قلمی ہنر اور شفاف انداز و سچائی نے اسے جلد ہی ملک کا مقبول ترین لکھاری بنا دیا۔ انیس سو چھیانوے میں اپنے اس نے اپنے کالموں کا مجموعہ (wishes and lies) شائع کیا جو ہاتھوں ہاتھ بکا۔
فکری طور پر وہ آزادئی اظہار رائے اور جمہوریت کا بہت بڑا حامی ہے اس لیے سنہ 2014 میں جب تھائی لینڈ میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو پرویت روجانا کے بُرے دن بھی شروع ہو گئے۔
مارشل لاء حکومت نے پہلی ہی فرصت میں اسے فوجی کیمپ میں حاضر ہونے کا حکم دیا لیکن وہاں جانے سے پہلے یہ دلیر صحافی تھائی میڈیا کے سامنے آیا اور دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے لگی پٹی رکھے بغیر کہا کہ مجھے یقین کی حد تک اُمید ہے کہ موجودہ ڈکیٹیٹر جنرل پریوت تھائی لینڈ کا آخری ڈکیٹیڑ ہی ثابت ہوگا اور اس کے بعد جمہوری استحکام اور اقدار آمریت کو حرف غلط کی طرح مٹاتی چلی جائیں گی، مزید کہاکہ فوجی آمریت میرے جسم کو تو قید کرسکتی ہے لیکن میری سوچ کی پرواز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اگلے دن اپنے وکیل اور یو این اہلکاروں کے ساتھ مارشل لاء حکومت کے قائم کردہ نیشنل کونسل فارپیس اینڈ آرڈر کے دفتر میں حاضر ہوا ۔
جہاں اسے اپنے وکیل اور دوسرے لوگوں سے الگ کرکے ایک جگہ لے جایا گیا اور مسلسل پانچ گھنٹے تفتیش کی گئی ۔
جس کے بعد پرویت روجانا پھروک کو مسنگ پرسن بنا کر کسی گمنام جیل میں بھیج دیا گیا۔
اس دوران اس کے ایک اور جمہوریت پسند صحافی دوست ایویساکول کو بھی حراست میں لیا گیا ۔
جس کے بعد صحافتی تنظیموں خصوصًا فارن کرسپانڈنٹ کلب آف تھائی لینڈ کا شدید رد عمل سامنے آیا ۔
جس میں مطالبہ کہا گیا کہ پرویت روجانا پھروک اور دوسرے صحافی ایوساکول کو فوری طور پر رہا کیا جائے کیونکہ ان کی گرفتاری سے صحافیوں کے بنیادی حق (آزادی اظہار رائے) کو چھینا جارہا ہے جبکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہو رہی ہے۔
تھائی صحافیوں کی اس احتجاج کو عالمی میڈیا نے پوری شدومد کے ساتھ اُٹھایا ۔
جس کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد پرویت روجانا کو رہا کر دیا گیا لیکن باہر آکر خاموشی کا لبادہ اوڑھنے کی بجائے اس نے اپنی قید کی روداد میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے برملا کہا کہ گرفتاری کے بعد پہلے تو مجھے بنکاک سے باہر ایک ملٹری کیمپ میں رکھا گیا ۔
جہاں مجھ سے سے فوجی افسران مسلسل تفتیش کرتے رہے بعد میں مجھے ایک اور جگہ منتقل کر دیا گیا.
اس دوران مجھ سے ایک کاغذ پر دستخط لئے گئے کہ میں نہ تو فوجی آمریت کی مخالفت میں لکھوں گا اور نہ ہی عوامی اور جمہوری حقوق کے لئے لڑوں گا
لیکن یہ دستخط مجھ سے میری مرضی کے بجائے جبرًا لیے گئے۔
اس لیے میں خود کو اس معاہدے کا پابند نہیں سمجھتا۔
سنہ 2015 میں پرویت روجانا پھروک کو دوبارہ حراست میں لیا گیا اور اس سے تفتیش شروع ہوئی۔
رہائی کے بعد اس نے میڈیا سے کہا کہ دوران تفتیش میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ عسکری حکومت اس بار پرنٹ میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا سے حد درجہ خوفزدہ ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ تفتیش کے بعد میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور گھنٹہ بھر مسافت کے بعد ایک اور کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس دوران مجھے بتایا جاتا رہا کہ تمھارے رویے سے “ تخریب “ نکال کر “ تعمیر “ کی طرف لانا مقصود ہے۔
اگلے چند دنوں میں اس کے اخبار نیشن پر شدید دباؤ ڈالا جانے لگا کہ پرویت روجانا پھروک کو برطرف کیا جائے لیکن جب اسے پتہ چلا تو یہ کہہ کر استعفٰی دے دیا کہ مجھے اپنے اخبار سے شدید محبت ہے اور میں اسے مسائل میں جھونکا نہیں چاہتا اس لیے خود اسے چھوڑ رھا ہوں.
اس دوران وہ اپنی رائے سوشل میڈیا (ٹوئٹر اور فیس بک پیج ) پر بیان کرنے لگا ۔
جسے پوری تھائی قوم فالو کرتی رہی.
اب ایک طرف عسکری حکومت دانشوروں، صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹی ویسٹس پر کریک ڈاؤن کرنے لگی تو دوسری طرف پرویت روجانا پھروک اس ظلم کی مخالفت میں آگ اُگلنے لگا اس لیے دوہزار سترہ میں اس پر متعدد مقدمات بنوائے گئے ، اور وہ عدالتی پیشیاں بھگتنے لگا لیکن رفتہ رفتہ شدید عوامی رد عمل کے سبب آمریت بھی گھٹنے ٹیکنے لگی۔
اس لیے اگلے سال فوج نے پسپائی اختیار کی اور ملک میں انتخابات کا اعلان ہوا اور جمہوریت بحال ہوگئی جس کے نتیجے میں منتخب وزیراعظم نے حلف اُٹھایا تو بااثر صحافتی تنظیم کمیٹی ٹو پرٹیکٹ جرنلسٹ (cpj) نے وزیراعظم کو خط لکھا کہ میڈیا سے پابندیاں اُٹھانے کے ساتھ ساتھ پرویت روجانا پھروک کے خلاف قائم کئے گئے تمام جھوٹے مقدمات واپس لئے جائیں ۔
اور یوں جمہوریت ایک جینوئن لیکن دلیر صحافی پرویت روجانا پھروک کی مدد کو آ پہنچی۔
پرویت روجانا آج کل بنکاک کے ایک اہم ویب سائٹ کے لئے کالم لکھتے ہیں جسے تھائی لینڈ کے عوام اپنا شعور اور اجتماعی بیانیہ سمجھتے ہوئے ایک عقیدت کے ساتھ پڑھتے بلکہ پوجتے ہیں۔
پتہ نہیں مجھے یہ کہانی لکھنے کے بعد منیرنیازی اچانک کیوں یاد آئے. کیا حرج ہے کہ آپ کو بھی یاد دلاتا چلوں۔
بے نتیجہ بے ثمر جنگ و جدل سودوزیاں
سب کی جیتیں ایک جیسی سب کی ماتیں ایک سی
سب ملاقاتوں کا مقصد کاروبارِزرگری
سب کی دھشت ایک جیسی سب کی گھاتیں ایک سی