خلیل قمر بنام آمنہ عروج کیس، خاتون چیف جسٹس کے خاتون ملزمہ پر ریمارکس
Reading Time: 2 minutesلاہور ہائیکورٹ میں ڈرامہ نویس خلیل الرحمن قمر کو ہنی ٹریپ کرنے کے ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی گئی ہے۔
پیر کو عدالت نے ملزم یاسر علی کی درخواست ضمانت منظور جبکہ ملزمہ آمنہ عروج کی ضمانت کی درخواست خارج کر دی۔
ہائیکورٹ نے ضلعی عدالت کو ٹرائل ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔
آمنہ عروج کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تمام ملزمان کی شناخت پریڈ ہوئی ہے، آمنہ عروج کی شناخت پریڈ نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے کہا کہ آمنہ عروج کی شناخت پریڈ کیوں ہو، ان کی شناخت تو پہلے ہی ہو چکی ہے۔
وکیل نے کہا کہ آمنہ عروج کو بغیر کسی ایف آئی آر کے گھر سے اٹھایا گیا، اور بعد میں مقدمے کا اندراج کیا گیا۔
وکیل کے مطابق گھر سے اُٹھانے والے سی آئی اے پولیس کے 15 اہلکار تھے، ساتھ کوئی بھی خاتون اہلکار بھی نہ تھی۔
آمنہ عروج کے وکیل نے عدالت کو مزید بتایا کہ خلیل الرحمٰن قمر اس واقعے سے ایک ماہ پہلے بھی آمنہ عروج سے ساتھ رابطے میں تھے۔
وکیل کے مطابق عدالت کے سامنے آمنہ عروج کا پہلا بیان یہ تھا کہ مجھے بلیک میل کیا گیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ 23 برس کی لڑکی جو گجرانوالہ میں رہتی ہیں مگر کام لاہور میں کرتی ہے، یہ کام کوئی بولڈ خاتون ہی کر سکتی ہے، ایسی خاتون اپنے ساتھ ہونے والے کسی واقعے پر خاموش نہیں رہ سکتی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے وکیل سے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ وہ پراپرٹی کا کام کرتی ہیں، مگر درخواست میں آپ نے لکھا ہے کہ وہ شوبز میں کام کرتی ہیں۔
چیف جسٹس مس نیلم کی سربراہی میں دو ڈویژن بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ملزمہ کو خلیل الرحمن قمر کی جانب سے ناجائز ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے بلیک میل کیا گیا.
درخواست کے مطابق آمنہ عروج کے انکار پر مقامی پولیس نے خلیل الرحمن کی ملی بھگت سے ملزمہ کو کیس میں نامزد کیا۔
ضمانت کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایف آئی آر چار دنوں کی تاخیر سے درج ہوئی جس سے پراسیکیوشن کا کیس بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ لاہور ہائیکورٹ ملزمہ آمنہ عروج اور یاسر علی کی درخواست ضمانت منظور کرے۔