کالم

شبلی نعمانی، مولانا آزاد اور انشا پردازی

ستمبر 3, 2020 3 min

شبلی نعمانی، مولانا آزاد اور انشا پردازی

Reading Time: 3 minutes

رشید ودود ۔ انڈیا

شبلی جب ‘شعر العجم، لکھ رہے تھے، تو انہیں دنوں محمد حسین آزاد بھی اسی موضوع پر ‘سخندان پارس، لکھ رہے تھے، قدرتی طور پر شبلی کو تشویش ہوئی کہ اگر موضوع ایک ہے تو آزاد کی تصنیف قارئین کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کر لے گی، اپنے اسی اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے وہ مہدی افادی کو ایک خط میں لکھتے ہیں-

‘جانتا ہوں وہ تحقیق کے میدان کا مرد نہیں ہے لیکن گپیں بھی ہانک دیتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہے،

شمس الرحمن فاروقی نے بھی آزاد کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا ‘گپ باز، کہا ہے، آزاد نرے انشاء پرداز تھے، مؤرخ نہیں تھے، جبکہ شبلی انشاء پرداز اور مؤرخ دونوں تھے، آزاد نے جب جب تاریخ پر قلم اٹھایا ہے، خود بھی بھٹکے ہیں، دوسروں کو بھی بھٹکایا ہے، مصیبت یہ ہے کہ انشاء پرداز کا ایک ہی فقرہ تاریخ پر اتنا ستم ڈھا دیتا ہے کہ ایک مؤرخ کی جان اس کی بھرپائی کرتے کرتے نکل جاتی ہے-

اس وقت ‘مقالات شبلی، کی چوتھی جلد میرے سامنے ہے، اس کتاب کا بارہواں مقالہ ‘جہانگیر اور تزک جہانگیری، پر ہے، شبلی نے پہلے تو شکوہ کیا ہے کہ

‘یورپ کے بے درد واقعہ نگاروں نے سلاطین اسلام کی غفلت شعاری، عیش پرستی، سیہ کاری کے واقعات کو اس بلند آہنگی سے تمام عالم میں مشہور کیا کہ خود ہمیں کو یقین آ چلا اور تقلید پرست تو بالکل یورپ کے ہم آہنگ بن گئے،

اس کے بعد شبلی نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے یہ صاف طور پر اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک انشاء پرداز جب تاریخ پر قلم اٹھاتا ہے تو وہ کس قدر تاریخی روایات کا خون کرتا ہے، وہ بڑی بے رحمی سے اپنی پسند و ناپسند اور اپنے تعصبات قاری پر تھوپتا چلا جاتا ہے اور قاری بیچارہ انشاء پرداز کے اسلوب کے سحر میں ایسا جکڑا رہتا ہے کہ خود بھی اسی کے ساتھ گھسٹتا رہتا ہے، شبلی لکھتے ہیں-

‘ہندوستان کے سب سے بڑے انشاء پرداز نے ‘نیرنگ خیال، میں جہانگیر کی تصویر کھینچی ہے، "اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا جو اپنی وضع سے ہندو راجہ معلوم ہوتا تھا، وہ خود مخمور، نشہ میں چور تھا، ایک عورت صاحب جمال (نور جہاں) اس کا ہاتھ پکڑے آتی تھی اور جدھر چاہتی تھی پھراتی تھی، وہ جو کچھ دیکھتا تھا اس کے نور جمال سے دیکھتا تھا اور جو کچھ کہتا تھا اسی کی زبان سے کہتا تھا، اس پر بھی ہاتھ میں ایک جزو کاغذوں کا تھا اور کان پر قلم دھرا تھا، یہ سوانگ دیکھ کر سب مسکرائے مگر چونکہ دولت اس کے ساتھ ساتھ تھی اور اقبال آگے اہتمام کرتا آتا تھا اس لئے بدمست بھی نہ ہوتا تھا جب نشہ سے آنکھیں کھلتی تھیں تو کچھ لکھ بھی لیتا تھا،،

اس کے بعد شبلی کہتے ہیں کہ ‘آؤ دیکھیں اس جھوٹ میں کچھ سچ بھی ہے، ہمارے انشاپرداز نے جہانگیر کے کبھی کبھی ہوش میں آ جانے کا جو کارنامہ بتایا ہے وہ اس کی کتاب تزک جہانگیری ہے،

شبلی نے اپنے اس مقالے میں ‘تزک جہانگیری، کے حوالے سے جہانگیر کی قدرت زبان، اس کی نفاست پسندی، مہمات ملکی کی طرف توجہ، علم الحیوانات میں مہارت، مصوری سے شغف، صناعی، صنعت گری اور خوش مذاقی، تحقیقات اشیا، دقت نظری اور موشگافی، شمشیر زنی، داد رسی، رعایا کی خبر گیری اور جفاکشی، جہانگیر کی پالیسی، ہندوؤں سے اس کے تعلقات، علما اور فقرا کی قدردانی اور خود جہانگیر کی علمی قابلیت کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے-

جہانگیر کی ‘جغرافیانہ اور محققانہ تحقیقات، غضب کی تھی، اس نے ‘تزک جہانگیری، میں کشمیر کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، شبلی اس کا جائزہ لے کر کہتے ہیں کہ

‘انصاف کرو ایک محقق جغرافیہ دان اور مؤرخ کسی ملک کا حال اس سے زیادہ کیا لکھ سکتا تھا باوجود اس کے یورپین مؤرخوں کی ناانصافی اور ستم ظریفی دیکھو کہ جہانگیر کو مست لایعقل کا خطاب دیتے ہیں اور افسوس یہ ہے کہ ہمارا اردو کا انشاپرداز بھی (مولوی محمد حسین آزاد) قاضی نوراللہ شوستری کے خون کا انتقام اسی پردہ میں لیتا ہے،

قاضی نوراللہ شوستری شیعوں کے جید عالم دین تھے لیکن تقیہ کر کے اپنے آپ کو سنی ظاہر کیا، عہد اکبری میں قاضی القضاۃ مقرر ہوئے، عہد جہانگیری میں ان کا شیعہ ہونا ظاہر ہو گیا، عہد جہانگیری میں اپنی کتاب ‘مجالس المؤمنین، کی وجہ سے قتل کر دیئے گئے تھے، شیخ محمد اکرام نے ‘رود کوثر، کے صفحہ نمبر 399 سے 405 تک قاضی صاحب کے حالات کو بڑی تفصیل سے قلم بند کیا ہے-

ہمارے وہ باون گز کے دانشور جو آج تاریخی روایات میں انشاءپردازی کا جوہر دکھا رہے ہیں، وہ جذباتیت کا چورن بانٹنا بند کریں، واقعہ نگاری کے سامنے جذبات نگاری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی-

(جاری)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے