گلگت بلتستان انتخابی کھیل آخری مرحلے میں!
Reading Time: 5 minutesعبدالجبار ناصر
قسط دوم
انتخابی مہم !
گلگت بلتستان میں اسمبلی کی 24 میں سے 23 نشستوں کے لئے 15 نومبر 2020ء کو ہونے والے الیکشن کی انتخابی مہم 13 نومبر کو رات 12 بجے ختم ہوچکی ہے، امن و امان کے حوالے سے انتخابی مہم پر امن رہی ، تاہم پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کی انتخابی مہم شمولیت کے بعد گلگت بلتستان کے انتخابات کی باز گشت پورے ملک کے کونے کونے بلکہ بیرون ممالک میں بھی ہے۔ اس بھرپور مہم کے یقیناً مثبت اثرات ہوں گے، مگر کئی تلخ یادیں رہیں گی ۔ بڑی جماعتوں کی انتخابی مہم کی بات کی جائے تو سب سے بہترین انتخابی مہم پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹوزرداری کی ہے ۔
بلاول بھٹو زرداری!
بلاول بھٹو زرداری نے 3 ہفتے تک گلگت بلتستان کے تقریباً تمام علاقوں اور حلقوں کا دورہ کیا اور بہت ہی منظم اور مربوط انداز میں انتخابی مہم چلائی ۔ بلاول بھٹو زرداری نے قومی ایشوز کے ساتھ گلگت بلتستان کے صوبائی سطح اور حلقوں یا علاقوں کے مقامی ایشوز کو بھی اجاگر کیا ، ان کے جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔ بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان کے عوام میں جاکر اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی یاد تازہ کردی ، ویسے بھی گلگت بلتستان میں اگر کسی سیاسی جماعت کا نظر یاتی ووٹ ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہی ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے اسی ووٹ بنک کو متحرک کرنے کی کو شش کی ہے ۔ غالباً بلاول بھٹو زرداری کی بہترین انتخابی مہم کا نتیجہ تھا کہ ن لیگ ، تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام کی قیادت بھی متحرک ہونے پر مجبور ہوئی ۔ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ اپنی قیادت کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ۔
مریم نواز شریف !
مسلم لیگ(ن)کی انتخابی مہم اگرچہ بلاول بھٹوزرداری کی طرح منظم نہیں تھی ،مگر مسلم لیگ(ن) کی مرکزی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف کے ایک ہفتے تک انتخابی مہم کا حصہ بننے سے انتخابی جوش اپنے عروج کو پہنچا ۔ مسلم لیگ (ن) کتنی نشستوں پر کامیاب ہوتی ہے، یہ الگ بحث ہے، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مریم نواز شریف کے جلسوں میں عوامی شرکت نے ہر علاقے اور حلقے میں مثال قائم کردی ہے ۔
مریم نواز شریف ، ن لیگ کے مرکزی سیکریٹری جنرل احسن اقبال اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے ’’بیانیہ ‘‘ کے ساتھ ساتھ مقامی ایشوزکے حل کی یقین دہانی اور حافظ حفیظ الرحمان کی صوبائی حکومت کی 5 سالہ کارکردگی بنیاد پر عوام سے ووٹ کی اپیل کی ہے ۔ مجموعی طور پر مسلم لیگ(ن) کی مہم بھی بہت بہتر رہی اور یقیناً ایک بڑے ووٹ بنک کو ن لیگ کی قیادت نے اپنی جانب متوجہ کیا ہے ، تاہم ن لیگ کے لئے مشکل یہ ہے کہ ان کے کئی سابق صوبائی وزراء سمیت ایک درجن کے قریب مضبوط امیدواروں نے الیکشن کے اعلان کے بعد میں تحریک انصاف میں شمولیت کی اور ن لیگ کے لئے ان حلقوں میں نئے مضبوط امیدواروں کا فوری فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوا۔
وزیر اعظم عمران خان کا اعلان !
وزیر اعظم عمران خان نے یکم نومبر کو یوم آزادی گلگت بلتستان کی تقریب میں شرکت کی اور تقریب سے خطاب میں گلگت بلتستان کو ’’آئینی عبوری صوبہ‘‘ بنانے جیسے انتہائی حساس موضوع پر نہ صرف گفتگو کی ،بلکہ اعلان بھی کیا ۔ وزیر اعظم کے اس اعلان کا یقیناً اندرون خانہ سخت ردعمل آیاہوگا ، جب ہی وزیر اعظم نے 40 منٹ بعد ہی اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے اعلان کو حذف کیا اور نگراں وزیر اعلیٰ میر افضل خان کو بھی وضاحت کی ضرورت پڑی ۔ تحریک انصاف اور اس کے حامی مانیں یا نہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وزیر اعظم کے اس اعلان کا تعلق برائے راست انتخابی مہم سے تھا اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ تحریک انصاف ہی گلگت بلتستان کو ’’عبوری آئینی صوبہ ‘‘بنانے کے حق میں ہے ، یقیناً اس حوالے سے مشکلات کا ادراک وفاقی حکومت اور اداروں کو متوقع قانون سازی کے وقت ہوگا۔
وفاقی وزراء!
تحریک انصاف غالباً مختلف جماعتوں (ن لیگ ، پیپلزپارٹی ، جمعیت علماء اسلام )کے ایک درجن سے زیادہ مضبوط امیدواروں کو توڑ کر پارٹی ٹکٹ اپنے سابقہ امیدواروں یا نظر یاتی رہنمائوں کی بجائے ان نئے شامل کئے جانے والوں کو دینے کے بعد مطمئن تھی کہ الیکشن کلی طور پر اب ان کے کنٹرول میں ہے ، مگر غور کرنے پر بلاول بھٹوزردار ی اور مریم نواز شریف کی مہم اور پاکستان میں تحریک انصاف کی ڈھائی سالہ حکومتی کارکردگی نے چودہ طبق روشن کردئے اور وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور، پارٹی کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی ذوالفی بخاری اور وفاقی وزیر مراد سعید سمیت نصف درجن کے قریب وفاقی وزراء نے مکمل سرکاری پروٹوکول اور مراعات کے ساتھ انتخابی ایکٹ 2017ء کے مطابق تیار ’’گلگت بلتستان الیکشن 2020ء ضابطہ اخلاق ‘‘کو عملاً سیاچن کے گلشئیر میں دفن کردیا ۔ علی امین گنڈا پور اور مراد سعید کی غیر سنجیدہ ، غیر شائستہ ، غیر اخلاقی باتوں اور ہوائی اعلانات نے ہر جگہ ایک داستان چھوڑی ہے ۔ گلگت بلتستان کی سیاست میں اس سے پہلے اس طرح کے رویہ کا تصور بھی نہیں تھا ۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو خاص مذہبی حمایت ضرور حاصل رہی تھی اور اب بھی ہے ،مگر ان کی مرکزی قیادت نے اس کو انتخابات میں استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی ،لیکن تحریک انصاف نے مذہبی کارڈ کا خوب استعمال کیا۔ اس پر مزید بحث پھر کبھی ۔ تحریک انصاف کی انتخابی مہم اگرچہ منظم نہیں تھی مگر ریاستی مشینری کے استعمال ، پہلے سے توڑے مضبوط امیدواروں کے ذاتی اور وفاقی حکومت کے اثر رسوخ کی وجہ سے ہر علاقے میں جلسے کئے اورمقامی صحافیوں کے مطابق وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور انتخابی مہم کے اختتام تک 3 نئے اضلاع کئی تحاصیل کے قیام ، 100 ارب روپے سے زائد ترقیاتی منصوبوں ، ہزاروں ملازمتوں ، ایک ہزار ووٹ پر ایک ارب روپے (ایک لاکھ ووٹ ملنے پر مزید 100 ارب )کےفنڈ کے اجراء اور درجنوں افراد کو مشیر ، معاون خصوصی بنانے سمیت کئی اعلانات کرچکے ہیں ، عمل در آمد ہوتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ اب مستقبل میں ہوگا۔ تحریک انصاف کے صوبائی صدر جسٹس (ر)جعفر شاہ کے انتقال کے باعث تحریک انصاف مقامی سطح پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی منظم نظر نہیں آئی ۔
جمعیت علماء اسلام!
انتخابی مہم کے آخری دنوں میں تینوں بڑی جماعتوں کی مرکزی قیادت کی مہم کو دیکھ کر غالباً جمعیت علماء اسلام کی قیادت کو بھی جوش آیا اور آخری تین چار دن مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری ، قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر اور مولانا فضل الرحمان کے فرزند مولانا اسعد محمود ، سندھ کے جنرل سیکریٹری مولانا راشد محمود سومرو نے ضلع دیامر ، ضلع استور دیگر علاقوں میں جلسے ضرور کئے مگر شاید بہت تاخیر ہوچکی تھی ۔ جمعیت علماء اسلام کی مرکزی اور مقامی قیادت نے سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتی تو ضلع دیامر میں 2 سے 3 نشستوں پر جمعیت علماء اسلام کی پوزیشن نہ صرف بہت بہتر بلکہ 2 نشستوں پر جیت بھی ممکن تھی ، تاہم اب بھی ایک نشست پر پوزیشن بہتر ہے ، اس میں بھی جماعت کی بجائے امیدوار کاہی اصل کردار ہے۔خطرہ ہے اس بات کا کہ ایک نشست کے سوا باقی نشستوں پر جمعیت علماء اسلام کے باقی 11 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہونگی ۔
مذہبی جماعتیں !
سخت گیر مذہبی جماعتوں میں مجلس وحدت مسلمین کے علامہ راجہ ناصر عباس اور اہلسنت والجماعت کے مولانا محمد احمد لدھیانوی نے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیا ۔ مجلس وحدت مسلمین تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے اور بلتستان میں مشترکہ جلسے بھی ہوئے ۔ 2 نشستوں پر مجلس وحدت مسلمین کے امیدواروں کی پوزیشن بہتر ہے۔ اہلسنت والجماعت کا واحد مضبو ط امیدوار بھی پارٹی قیادت کی مشاورت سے عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان اور جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماء مولانا سلطان رائیس الحسینی (جو آزاد امیدوار ہیں)کے حق دستبردار ہوچکے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ:تیسری قسط حلقہ وار انتخابی پوز یشن پر مبنی ہے ، جبکہ قبل از انتخاب مبینہ دھاندلی ، الیکشن کمیشن آف گلگت بلتستان کی خاموشی ، ہار جیت میں پوسٹل بیلٹ پیپرز کے کردار اور بڑی تعداد میں مبینہ جعلی بیلٹ پیپرز کے اجراء کے متعلق تفصیل چوتھی قسط میں شامل ہوں گی۔