آصف سعید کھوسہ نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا: جسٹس قاضی فائز کے دلائل
Reading Time: 5 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ میں دس رکنی لارجر بینچ کے سامنے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس میں دلائل دیتے ہوئے اشعار کا سہارا لیا اور دو سابق ججوں کو نشانہ بنایا۔
جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر کہا کہ ایف بی آر کو کیس بھیج کر قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔
رپورٹ: جہانزیب عباسی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق ان کی اہلیہ کیس میں فریق نہیں تھیں پھر بھی ان کے بارے مجں فیصلہ دیا گیا۔ ”اپنی اہلیہ، بیٹی اور بیٹے سے معذرت خواہ ہوں، میری وجہ سے اہلیہ اور بچوں کے خلاف فیصلہ آیا۔“
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آج تک ایک شخص عدالت میں موجود نہیں ہے، فروغ نسیم کے لیے عدالت کا احترام نہیں وزرات ضروری ہے۔فروغ نسیم نے میری اہلیہ اور مجھ پر الزامات عائد کیے، فروغ نسیم کو شاید اسلامی تعلیمات کا بھی علم نہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہنے کو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں مگر دراصل منافقین کی قوم ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس ایف بی ار کو بھیجوانے کا فیصلہ عدالتی اختیارات سے تجاوز تھا، ارٹیکل 184/3 بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے، میری بیٹی اور بیٹے کو ایف بی ار نوٹس کا قانونی نہیں تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت شعر پڑھا:
غم عشق لے کر ہم جائیں کہاں
آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے دلائل میں کہا کہ ججز سے غلطی ہو جائے تو نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے، عدالتی حکم آئین اور متعدد قوانین کے خلاف ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کسی شخص کے ٹیکس ریکارڈ تک غیر قانونی رسائی فوجداری جرم ہے، وزیر قانون نے اپنے دلائل میں انکم ٹیکس قانون کی دفعہ 198 کو بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا تھا، سماعت مکمل ہونے کے بعد بھی فروغ نسیم نے تحریری دلائل جمع کراتے رہے، فروغ نسیم نے حلف کی خلاف ورزی کی انہیں فوری طور پر برطرف کیا جانا چاہیے، تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی ایف بی آر کو کاروائی مکمل کرنے کا کہا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان نے بدنیتی پر مبنی کارروائی کی، سپریم جوڈیشل کونسل نے کمجھے صفائی کا موقع نہیں دیا، سپریم جوڈیشل کونسل نے انصاف کا قتل عام کیا، مجھے کونسل پر تحفظات ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ صدر نے میرے تین خطوط کا جواب تک دینا گوارا نہیں کیا، مجھے ریفرنس کی کاپی نہیں ملی لیکن میڈیا پر بینڈ باجا شروع ہوگیا، میرے اور اہلخانہ کیخلاف فیفتھ جنریشن وار شروع کی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے مطابق آصف سعید کھوسہ نے میرا موقف سنے بغیر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا، میرے ساتھی ججز نے جوڈیشل کونسل میں مجھے پاگل شخص قرار دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ وحید ڈوگر سمیت کسی درخواست گزار دلائل دینے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں خون کے آخری قطرے تک لڑوں گا، میں ہمت نہیں ہاروں گا۔ مجھے بطور جج سپریم کورٹ کے عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں، مجھے عہدے سے ہٹانے کی خواہش کی وجہ یہ ہے کہ میں نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا۔
جسٹس فائز کے مطابق مرحوم خادم حسین رضوی نے بھی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل دائر نہیں کی، خادم رضوی کے علاوہ باقی سب نے فیض آباد دھرنا فیصلہ چیلنج کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے بھی فیض آباد دھرنا فیصلے کیخلاف نظرثانی اپیل دائر کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف کی نظرثانی درخواست میں کہا گیا میں جج بننے کا اہل ہی نہیں ہوں، میں واقعی جج بننے کا اہل نہیں کیوں کہ میں بنیادی حقوق کی بات کرتا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کیس دوبارہ جوڈیشل کونسل بھجوانے پر دلائل دوں گا، جسٹس عظمت سعید دوست تھے مگر ان کے فیصلے سے دکھ ہوا، اب وہ حکومت کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن ججز کے آپ نام لے رہے ہیں وہ ریٹائر ہوچکے ہیں، بار بار دو ججز پر الزامات نہ لگائیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اپنے کیس پر دلائل دیں آپ کی مہربانی ہوگی۔
فائز عیسیٰ کے دلائل:
کہا گیا عمران خان کی فیملی کے بارے میں بات نہیں ہوسکتی،عمران خان کرکٹر تھے تو ان کا مداح تھا اٹوگراف بھی لیا، عمران خان بھی ایک انسان ہیں۔ ملک کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے، پاکستان کو باہر سے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔
بینچ کے سربراہ نے قاضی فائز عیسٰی سے کہا کہ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کریں، سپریم جوڈیشل کونسل کے بارے میں آپ کے وکیل نے دلائل نہیں دیے تھے۔
قاضی فائز کے مطابق: میری درخواست کا ایک حصہ ریفرنس دوسرا جوڈیشل کونسل کے متعلق تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے وکیل نے اصل مقدمے میں جوڈیشل کونسل والے حصے پر دلائل نہیں دئیے تھے، سپریم جوڈیشل کونسل والے حصے پر نظرثانی میں دلائل کیسے دے سکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عدالت نے ریفرنس کو اپنے فیصلے میں زندہ رکھا ہے۔
عدالت کے سوال نظرانداز کرنے اور اپنی بات جاری رکھنے پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا سوال سن لیں۔
قاضی فائز نے جواب دیا کہ معزز جج صاحبان میری دلیل سے اتفاق کریں یا اختلاف کریں یہ ان کی صوابدید ہے، مجھے اپنے دلائل دینے کا تو حق حاصل ہے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ آپ اس وقت درخواست گزار ہیں، میں بنچ کے رکن جج کے طور پر سوال پوچھ رہا ہوں۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ سوال پوچھنا جج کی صوابدید ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے قاضی فائز سے کہا کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کریں۔
جسٹس قاضی فائز کے مطابق اثاثہ جات ریکوری یونٹ قانونی وجود نہیں رکھتا، شہزاد اکبر پاکستان تحریک انصاف کا رکن ہے، شہزاد اکبر کو جیل میں ہونا چاہیے، شہزاد اکبر ملک کا بااثر شخص ہے اس لیے اس سے کوئی نہیں پوچھتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر نیب میں آٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دار ملازم تھا، شہزاد اکبر کی دولت میں کیسے غیر غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت سائے حکمرانی کر رہے ہیں، ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہم جمہوری دور میں رہ رہے ہیں یا آمریت کا دور چل رہا ہے، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کیلئے مختلف محکموں سے لوگوں کو اٹھایا گیا، اشفاق احمد کو ایف بی آر سے منتخب کیا گیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال: حکومت میں موجود غیر منتخب افراد کو غلط نہ کہیں، سیاسی لوگوں کو حکومتی عہدے ملتے رہتے ہیں، ان باتوں کو چھوڑیں اور اصل مدے پر آئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی: انور منصور توہین عدالت کے مرتکب ہوے تھے، انور منصور نے کہا بینچ میں موجود ججز میری مدد کر رہے ہیں، آج تک انور منصور نے معافی نہیں مانگی، انور منصور نے کہا تھا انہوں نے فروغ نسیم کے کہنے پر بیان دیا، انور منصور نے بطور اٹارنی جنرل عدالت کا مذاق اڑایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ عدالت کی عزت پر آنچ نہیں آنی چاہیے۔
جسٹس عمر عطا: آپ شاہد حقائق سے واقف نہیں، انور منصور کو عہدے سے مستعفی ہونا پڑ گیا تھا، ججز کے بارے میں جس نے بھی بات کی اس کے خلاف ایکشن لیا۔