کابل میں ترک افواج کا قیام کس لیے؟
Reading Time: 4 minutesترکی افغانستان میں کوئی نمایاں کردار حاصل کرنے کے لیے عرصے سے سرگرم تھا۔ قیام امن کے مذاکراتی عمل کا وہ کسی نہ کسی طرح حصہ رہا ہے اور ایک سے زائد مرتبہ مذاکرات کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔ دو تین ماہ قبل سننے میں آیا تھا کہ امریکی حکومت ترکی کو افغانستان میں کوئی اہم کردار سونپنا چاہتی ہے۔
صدر طیب اردگان کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ وہ ترکی کے وسیع تر قومی مفاد کے نام پر جہاں مناسب خیال کرتے ہیں، ٹانگ پھنسا دیتے ہیں۔ مگر اتہاس گواہ ہے کہ کابل میں ٹانگ پھنسانا ہر کسی کو راس نہیں آتا۔
چند روز پہلے ترک صدر نے افغانستان حکومت کے تحفظ کیلئے پاکستان، ترکی اور ہنگری کو مشترکہ طور پر ذمہ داری سونپنے کی تجویز دی تھی۔ جس پہ سبھی جانتے تھے کہ کسی نے کان نہیں دھرنے۔ بیلجیم کو نیٹو کی چھتری کے بغیر افغانستان میں رہنے میں کوئی کشش دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری طرف افغان حکومت اور عوام پاکستانی افواج کے کابل میں قیام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ تو یہ تجویز تو خیال است و محال است ہی ثابت ہوئی۔ اس کا مقصد محض پاکستان کی اشک شوئی تھا کہ گھبرانا نہیں ہے، ہم آپ کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے۔
ترک صدر کے حالیہ دورہ امریکا میں، بالآخر یہ فیصلہ ہوگیا کہ ترک فوجی دستے بدستور کابل ہی میں قیام کریں گے اور کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے۔ اس وقت ترکی کے پانچ سو فوجی کابل میں مقیم ہیں۔ ابتدا میں شاید انہی پر اکتفا کیا جائے گا۔ مگر پھر صورتحال کے مطابق ان کی تعداد بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔ مگر مسئلہ تعداد کا نہیں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ترکی نے گویا کھل کر کابل حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جو اصولی طور پر درست ہے اور تقریباً ساری دنیا ایسا ہی کرے گی۔ مگر چونکہ مملکت خداداد اور اس کے عوام کسی اور ہی متوازی کائنات میں رہتے ہیں، جس کا انتظام افغان طالبان اور ہمارے غازی و پراسرار بندے مل کر چلاتے ہیں۔ تو ہمارے لئے یقیناً یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔
لیکن عمومی طور پر اس اقدام کو ہر ریجنل پاور شک کی نگاہ ہی سے دیکھے گی۔ روس نے کل ہی اس فیصلے کی مخالفت کر دی ہے۔ طالبان اور امریکا کے مابین طے شدہ معاہدے میں تمام غیر ملکی افواج کا انخلاء شرط تھی۔ ترک فوجی دستے کابل میں رہنا بظاہر اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
اور یہی موقف طالبان کا بھی ہے جس کا ذبیح اللہ مجاہد نے کل اعلان بھی کر دیا ہے۔ طالبان کسی بھی غیرملک کی فوج کو حملہ اور سمجھیں گے اور ان سے حملہ آوروں ہی کی طرح نبٹیں گے۔ بھارت، ایران اور چین کا موقف ابھی سامنے آنا باقی ہے۔
ہمارا موقف کبھی سامنے نہیں آئے گا۔ کیونکہ ہم نہ طالبان کو ناراض کر سکتے، نہ امریکا کو اور نہ ہی ترکی کو۔ لے دے کر ایک افغان حکومت بچتی ہے جس پر ہمارا زور چلتا ہے۔
طلوع نیوز کے ساتھ شاہ محمود قریشی کے انٹرویو کا وہ حصہ جہاں آپ اپنے روایتی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمال ڈھٹائی سے افغانستان میں جاری تشدد کی لہر سے طالبان کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش فرما رہے، ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ ہم دنیا کو کس قدر فارغ اور خود کو کتنا بڑا جینئس تصور کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی نے مشکل وقت میں افغان حکومت کو بہت بڑی سپورٹ فراہم کر دی ہے۔ کل عبداللہ عبداللہ ترک صدر سے ملاقات میں اسی لیے اتنا خوش دکھائی دے رہے تھے۔ اب طالبان کا کابل پر حملہ انہیں براہ راست ترک فوجوں کے مقابل لا سکتا ہے۔ کسی متوقع حملے کی صورت میں ہمارے ارطغرلوں اور ابدالیوں میں جھڑپ ہوتی ہے تو پھر پاکستانیوں کے دل کس کے ساتھ ہوں گے؟ اور تلواریں کس کے ساتھ؟
افغانستان میں جو کھچڑی چار عشروں سے پک رہی ہے، اس میں ایک اور دال کا اضافہ ہو گیا ہے اور اس دال میں بہت کچھ کالا ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای کو بھی ترکی کے اس فیصلے سے کوئی خاص مسرت نہیں ہوئی ہوگی اور ان کی ناخوشی جلد ہم پر بھی عیاں ہو جائے گی۔
ہمارے کالے جھنڈوں والے بقول ہمارے ستر فیصد افغانستان پر تو بیس سال سے عملاً قابض ہیں ہی۔ دس پندرہ فیصد مزید پر قابض ہو جائیں گے۔ کابل، ہرات اور مزار شریف شاید ان کے ہتھے نہ چڑھ سکیں۔ دنیا کابل حکومت ہی کو تسلیم کرتی ہے اور کرے گی۔ یعنی صورتحال بدتر ضرور ہوگی مگر اس میں کوئی جوہری تبدیلی جنگ کے ذریعے ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
ہمارے بہترین مفاد میں یہی ہے کہ کسی طرح طالبان اور افغان حکومت کو شراکت اقتدار پر قائل کر لیا جائے۔ جنگ کی صورت میں پچھلے چار عشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ کاغذوں میں فتح ہماری ہوتی ہے اور زمین پر قدم دشمن کے بڑھتے ہیں۔
انطالیہ ڈپلومیسی فورم کے پلیٹ فارم پر شاہ محمود قریشی کی ترک ہم منصب اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی ہے۔ جس میں یقیناً انہیں کچھ اہم اشارے ملے ہوں گے۔ صدر طیب اردگان نے قریشی صاحب سے ملنا ضروری نہیں سمجھا تھا تاہم عبداللہ عبداللہ سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ جس میں مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
اب بہتر ہے کہ ہم بھی اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پہ ایک بار پھر نظر ثانی کی کوشش کر دیکھیں۔ افغانستان سے ملحقہ ہمارے سرحدی علاقوں میں افغان طالبان کیلئے چندہ مہم رمضان سے پہلے سے جاری ہے۔ بڑی عید کے بعد اس میں تیزی آئے گی اور ستمبر میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد شاید ہمارے ہاں بھرتی مہم بھی شروع کر دی جائے۔
افغان طالبان کیلئے بڑھتی ہوئی حمایت سے فائدہ اٹھانے کیلئے ٹی ٹی پی بھی کسی نئے روپ میں دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔ ہمارے لئے صرف خارجی ہی نہیں، داخلی سطح پر بھی چیلنجز بڑھ جائیں گے۔
لیکن جب تک باجوے اور خان کی جوڑی موجود ہے۔ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو جہاں کچھ سجھائی نہ دے وہاں وہ اپنی فیورٹ گیم یعنی ڈبل گیم شروع کر دیتی ہے۔ اب دیکھیں ترکی ہمارے جھانسے میں آتا ہے یا نہیں۔
اگر چالیس برس میں کبھی ایک بار بھی، کبھی ایک دن بھی، ہم نے افغانستان میں جنگجوؤں کی بجائے افغان عوام اور حکومت کا ساتھ دیا ہوتا تو شاید قیام امن کے لیے آج پاکستانی فوجیں کابل میں داخل ہو رہی ہوتیں اور افغان عوام سڑک کے دونوں جانب کھڑے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے ہوتے۔
اب ہمیں وہاں جتنی عزت حاصل ہے آپ کو پتہ ہی ہے۔ آثار مزید عزت افزائی والے دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ رحم فرمائے آمین۔