حلقہ بندی، آبادی کے بجائے ووٹ اور نتائج!
Reading Time: 3 minutesعبدالجبار ناصر . صحافی
قومی اسمبلی میں 10 جون 2021ء کو انتخابی ایکٹ 2017ء میں ترمیم کی گئی ہے کہ نئی حلقہ بندی آبادی کے بجائے صوبوں کے درج ووٹ کے حساب سے مساوی ہوگی ۔ اس سے ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے ووٹ میں صوبوں کے مابین نہ صرف بہت زیادہ فرق آئے گا، بلکہ مساوی حق نمائندگی کے حوالے سےکئی سوالات بھی اٹھیں گے۔
ترمیم کے قانون بننے کی صورت میں پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشست کے ووٹ کے مقابلے میں سندھ کی نشست 85 فیصد، خیبر پختونخوا کی نشست 82 فیصد، بلوچستان کی نشست 64 فیصد اور اسلام آباد کی نشست 61 فیصد ووٹ پر مشتمل ہوگی۔صوبائی اسمبلیوں میں پنجاب اسمبلی کی نشست کے ووٹ کے مقابلے میں سندھ کی نشست 84 فیصد، خیبر پختونخوا کی نشست 76 فیصد اور بلوچستان کی نشست 43 فیصد ووٹ پر مشتمل ہوگی۔ قومی اسمبلی میں پنجاب اور بلوچستان کی نشست میں 39 فیصد جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں 57 فیصد فرق ہوگا۔قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم ملک بھر میں ووٹ کی بنیاد پر مساوی کردی گئی تو پنجاب میں 14 جنرل نشستوں کا اضافہ جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پانچ پانچ ، سندھ میں 3 اور وفاقی دارالحکومت میں ایک جنرل نشست کی کمی آئے گی۔
آئین کے آرٹیکل 51 (5)میں واضح درج ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم آخری مردم شماری کے بعد آبادی کی بنیاد پر صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں تقسیم ہونگی ۔ 10 جون 2021ء کو قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی ترمیم میں حلقہ بندی کو آبادی کے بجائے صوبوں کی ووٹر فہرست کے مطابق ہر صوبے کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ووٹ کی بنیاد پر اپنی اپنی کیٹگری میں مساوی تقسیم ہونگی ۔ اگر سینیٹ سے یہ ترمیم منظور ہوتی ہے تو یہ ایکٹ کا حصہ یعنی قانون بن جائے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے بیان میں اس ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حلقہ بندی آبادی کے بجائے ووٹر فہرست کی بنیاد پر کیاجانا آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں ہے، مگر حکومتی وزراء کا شدید اصرار ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر ایسا ممکن ہے۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر حلقہ بندی کے طریقے کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے اور آئین کی روح یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم ملک بھر میں مساوی ہو ،یہی وجہ ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 51(5)کے مطابق نئی حلقہ بندی آبادی کی بنیاد پر ہو ئی ،جس میں پنجاب کی نشستوں میں کمی اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے ۔
ریکارڈ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 5 مارچ 2018ء کو انتخابی ایکٹ 2017 ء کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے لیے آبادی کی اوسط حد مقرر کردی ، جس میں خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کا حلقہ7 لاکھ 82 ہزار 650، اسلام آباد میں 6لاکھ 68 ہزار 857، پنجاب میں7 لاکھ 80 ہزار 230،سندھ میں7 لاکھ 85 ہزار 17اور بلوچستان میں 7 لاکھ 71 ہزار 525 افرادکا رکھا گیا۔صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے خیبر پختونخوا میں صوبائی حلقہ3لاکھ8 ہزار317،پنجاب میں3 لاکھ 70 ہزار 429،سندھ میں3 لاکھ 68 ہزار410 اور بلوچستان میں 2 لاکھ 42 ہزار 54 افراد کا رکھا گیا۔ ایکٹ 2017ء کے قواعد وضوابط کے مطابق ایک ہی کیٹگری یا ایک ہی اسمبلی کے حلقوں میں آبادی کا فرق 10فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔
چھٹی مردم شماری 2017ء میں پنجاب کی آبادی کی وجہ سے 2018ء کی حلقہ بندی میں پنجاب میں قومی اسمبلی کی 7 جنرل اور 3 خواتین کی نشستیں کم ، جبکہ خیبر پختونخوا کی 4 جنرل ،2 خواتین اور بلوچستان میں 2 جنرل اور ایک خاتون کی نشست کا اضافہ ہوا اور یہ اضافہ قومی اسمبلی کی حلقہ بندی آبادی کی مساوی تقسیم کی وجہ سے ہوا۔ 2018ء کی حلقہ بندی سے قبل قومی اسمبلی میں پنجاب کی 148 جنرل اور 35 خواتین ، سندھ میں 61 جنرل اور 14 خواتین ، خیبر پختونخوا میں 47 جنرل (فاٹا سمیت)اور 8 خواتین ، بلوچستان میں 14 جنرل اور 3 خواتین اور وفاقی دارالحکومت میں 2 جنرل نشستیں تھیں ۔ 2018ء کی حلقہ بندی کے بعد قومی اسمبلی میں پنجاب کی 141 جنرل اور 32 خواتین ، سندھ میں 61 جنرل اور 14 خواتین ، خیبر پختونخوا میں 51 جنرل (فاٹا سمیت)اور 10 خواتین ، بلوچستان میں 16 جنرل اور 4 خواتین اور وفاقی دارالحکومت میں3 جنرل نشستیں ہیں ۔ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی 10 نشستیں ملک گیر ہیں۔
قومی اسمبلی کی حالیہ ترمیم کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں میں پنجاب اور سندھ میں 15 فیصد،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 18 فیصد، پنجاب اور بلوچستان میں 35 فیصد اور پنجاب و اسلام آباد کی نشستوں میں 39 فیصد ووٹ کا فرق ہوگا اور سی طرح دیگر اکائیوں کے مابین بھی واضح فرق ہوگا اور یہ آئین کے مساوی نمائندگی اصول کی خلاف ورزی ہے۔
نوٹ : مزید تفصیل منسلک چارٹ میں