کالم

محکمےکے معاشی مفادات ہی اصل مسئلہ؟

جولائی 1, 2021 3 min

محکمےکے معاشی مفادات ہی اصل مسئلہ؟

Reading Time: 3 minutes

اگر آپ تحریک انصاف کے حامی نہیں اور آپ کا سیاسی شعور منفی دو نہیں ہے تو آپ یہ جانتے ہوں گے کہ یہ عمران خان ہی نہیں بلکہ ہر منتخب یا نیم منتخب وزیراعظم کی خواہش تھی کہ ہماری خارجہ پالیسی سویلنز کو سونپی جائے لیکن کسی اور طاقتور مافیا کو یہ بات قبول نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو بینظیر کے ساتھ چپکایا گیا، یہی وجہ تھی کہ طارق فاطمی کو اپنے غیظ و غضب کا شکار بنایا گیا اور یہی وجہ ہے شاہ محمود کو پی ٹی آئی کے سر پر بٹھانے کی۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہر سیاسی یا نیم سیاسی حکمران یہ چاہتا تھا کہ خطے میں پنگے لینا بند کیے جائیں اور ہمسایہ ممالک خصوصی طور پر بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر کئے جائیں لیکن کچھ حلقے یا ہلکے ایسا نہیں چاہتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی سے مینار پاکستان دھلوایا جاتا رہا، بینظیر پر سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دینے کا الزام لگایا جاتا رہا، نواز کو مودی کا یار کہا جاتا رہا اور طاہرالقادری کے ذریعے شوگر ملوں سے جاسوس برآمد کروائے جاتے رہے۔

اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فوجی اقتدار یا آمریت کی خارجہ پالیسی بدترین تھی اور اس کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ آمریت کے ولدیت کے خانے میں بندوق ابن بندوق لکھا ہوا ہوتا ہے نہ کہ اصل والد کا نام، اور بندوق دراصل کمزوری کی علامت ہوتی ہے اور اسے خوف ہوتا ہے کہ چوری کا مال برآمد نہ کروا لیا جائے۔

عمران خان جہاں اس ملک کے لیے ایک بہت بڑا ڈیزاسٹر ثابت ہوئے ہیں وہیں وہ ایک لحاظ سے ایسیٹ بھی ہیں، ان کا چونکہ پاکستانی معاشرے میں سٹیک صفر ہے اس لئے وہ نسبتاً نڈر ہیں، جو بات بند کمرے میں ڈان لیکس کہلاتی ہے وہ کھلی اسمبلی میں ایک وزیراعظم کے دل کی بات کہلاتی ہے۔

عمران خان اس بات سے واقف ہوں گے کہ وہ جس افغان پالیسی کی بات کر رہے ہیں یعنی ایک خود مختار اور آزاد افغانستان وہ ان کے منصب سے بہت بالا کی چیز ہے۔

شاہ محمود، شیریں مزاری یا شفقت محمود بھارت کے ساتھ تجارت کے امکانات کو سبوتاژ کر کے جس مافیا کی پالیسی کی حمایت کر رہے تھے وہی مافیا اس ملک میں اصل طاقتور گروہ ہے اور اس گروہ کی نظر میں عمران خان یا سابقہ وزرائے اعظم کی حیثیت وہی ہے جو برسوں قبل ایک ٹی وی پروگرام میں عمران خان نے شیخ رشید کی ظاہر کی تھی۔

عمران خان بہرحال اپنے خطاب میں سچ اور جھوٹ کی آمیزش سے باز نہیں آ سکے,جب وہ امریکا سے یہ گلہ کر رہے تھے کہ امریکا نے پاکستان کو دوغلی پالیسی کا طعنہ دیا ہے تو وہ جانتے تھے کہ امریکی سچ بول رہے ہیں اور ہم جھوٹے ہیں لیکن اس بات کو سرعام ماننا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔

مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ عمران خان یہ بات بھی جانتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات اس وقت تک بیکار ہیں جب تک انتخابات سے پہلے یہ طے نہیں کیا جاتا کہ منظم بدمعاشی کرنے والے اپنے آپ کو انتخابی عمل سے باہر نہیں کر لیتے، جس کے امکانات تقریباً معدوم ہیں کیونکہ ان کے معاشی مفادات ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

کنواں اور کتا جدا نہیں ہوتے تو پانی پاک ہونے کے امکانات اتنے ہی کم ہیں جتنے عمران خان سے کسی عقل کی بات سرزد ہونے کے چانس۔

ایک بات بہرحال تقریباً یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ عمران خان کے خالق ادارے میں سب ٹھیک نہیں اور جلدی سے کسی بہتری کے امکانات بھی بقدر اشک بلبل ہی ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے