افغان طالبان کی بالادستی سے پاکستانی طالبان کو تقویت ملے گی: وزیر خارجہ
Reading Time: 4 minutesپاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں طالبان کی بالادستی سے پاکستانی طالبان کو تقویت ملے گی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان ایشو پر معذرت خواہانہ رویہ ہرگز نہیں اپنائیں گے ، ہم امن قائم کرنے والوں کا ساتھ دیں گے، ہم اکیلے افغانستان کے ٹھیکیدار نہیں دو ٹوک اورڈٹ کر بات کریں گےآج کل بڑے بڑے قائدین منفی بیانات دے رہے ہیں ہم جواب دے سکتے ہیں لیکن ہم چاہیں گے قومی سلامتی کے ایشوز پر مشترکہ سوچ رکھی جائے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکا کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ہمارا تعمیری شراکت دار ہے، ان کے مطابق افغانستان میں ان کی اور پاکستان کی منزل ایک ہے، تیسری بات وہ پاکستان کو محض افغانستان کے نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ 31 اگست تک افغانستان سے انخلا مکمل ہو جائے گا لیکن پاکستان اور خطے کے ساتھ امن کے لیے ایک رشتہ استوار رہے، جس پر پاکستان کوئی اعتراض نہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ آج پوری دنیا ہمارے مؤقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، یہی بات عرصہ دراز سے وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں، انخلا کے فیصلے پر ان کا بائی پارٹیزن اتفاق ہے، ہماری سوچ تھی کہ انخلا ذمہ دارانہ ہو تاکہ کوئی منفی قوت فائدہ نہ اٹھائے، انخلا اور افغان امن عمل کو ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہئے، جب کہ امریکا کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے، ان مقاصد کو صدر بائیڈن نے بیان کیا ہے، اور کہا کہ ہمارا مقصد نائن الیون کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانا تھا جو مکمل ہوا۔
شاہ محمود کے مطابق امریکا کا مقصد افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو اتنا کمزور کرنا تھا کہ وہ آئندہ کسی اور کو نشانہ نہ بنا سکیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں قومی تعمیر کے لیے نہیں گئے تھے افغانستان کا مسئلہ افغانوں نے مل بیٹھ کر حل کرنا ہے اور ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں۔
شاہ محمود کا کہنا تھا کہ امریکہ کا نکتہ نظر یہ ہے کہ انخلا کے بعد بھی وہ انسانی بنیادوں پر معاونت جاری رکھیں گے، وہ ڈپلومیٹک موجودگی رکھنا چاہتے ہیں، وہ کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کے لیے معاونت فراہم کرنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں، انہوں نے زلمے خلیل زاد کو ہدایت کی ہے کہ وہ جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے روابط جاری رکھیں گے۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ ان کی امریکی سیکرٹری خارجہ بلنکن سے بات متوقع ہے، ان کے سامنے پاکستان کا نکتہ نظر رکھوں گا، امریکا نے اپنے سابقہ حلیفوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، آج دوحہ معاہدے اور بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا جا رہا ہے، دوحہ معاہدے میں طالبان نے انخلا کے دوران حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا اور انہوں نے اس معاہدے کی پاسداری کی، جسے امریکہ تسلیم کرتا ہے۔ امریکا کے مطابق تین علاقے ایسے ہیں جہاں دہشت گردی پنپ سکتی ہے جس میں مڈل ایسٹ، افریقا اور جنوبی ایشیا شامل ہیں، ان خطرات سے نمٹنے کے کیے وہ حکمت عملی تشکیل دے رہے ہیں، انہیں اپنی اسٹریٹیجک مسابقت چین سےدکھائی دے رہی ہے، اس سارے تناظر میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ہم نے ستر ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت چکائی ہے، اگر افغانستان کی صورتحال خراب ہوتی ہے اور حالات 90 کی دہائی کی طرف جاتے ہیں تو ہمارے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا، مزید مہاجرین کے آنے کا خطرہ بھی موجود ہے، ہم بارڈر فینسنگ بھی کر رہے ہیں اور سرحد کو محفوظ بنارہے ہیں، ہم ایران ماڈل کو بھی زیر غور لا رہے ہیں، ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔
وزیرخارجہ نے بتایا کہ کل تاجکستان اور ازبکستان روانہ ہورہا ہوں وہاں افغان ایشو پر اہم کانفرس میں کئی ممالک شریک ہوں گے، ہم معذرت خواہانہ رویہ ہرگز نہیں اپنائیں گے ، ہم امن قائم کرنے والوں کا ساتھ دیں گے، ہم اکیلے افغانستان کے ٹھیکیدار نہیں دو ٹوک اور ڈٹ کر بات کریں گے، افغانستان کی صورتحال سنگین ہورہی ہے اور اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا جائز نہیں، اشرف غنی طالبان کے ساتھ بیٹھے کو تیار ہیں لیکن طالبان کو اشرف غنی پر اعتراضات ہیں، طالبان کا لباس سادہ لیکن وہ انتہائی ذہین اور قابل لوگ ہیں طالبان اب بہت سمجھدار ہوگئے ہیں انہیں ہر چیز کا ادراک ہے، طالبان دوحہ مذاکرات کے بعد اب بدل چکے ہیں پاکستان کو نئی بدلتی صورتحال کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ افغانستان اپنے وسائل سے دفاع و سیکیورٹی نہیں سنبھال سکتے، ہندوستان افغان امن عمل کو خراب کررہا ہے، افغانستان میں شورش بھارت کے مفاد میں ہے، افغان جنگ سے اس نے اربوں ڈالر کمائے تو وہ کیوں امن قائم ہونے دے گا، بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام رہے، ہم اس حوالے سے امریکا، یورپ اور دیگر ممالک کو آگاہ کر چکے ہیں۔
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے حوالے سے وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اپوزیشن کی ہر قابلِ عمل تجویز کو صدق دل سے قبول کریں گے، جلسوں میں آج کل بڑے بڑے قائدین منفی بیانات دے رہے ہیں ہم جواب دے سکتے ہیں لیکن ہم چاہیں گے کہ قومی سلامتی کے ایشوز پر مشترکہ سوچ رکھی جائے۔