افغانستان میں ’جمہوریت نہیں، شوریٰ کا نظام حکومت ہوگا‘
Reading Time: 2 minutesطالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں نئے حکومتی ڈھانچے کے خدوخال اگلے ہفتے تک سامنے آ جائیں گے اور فیصلہ سازی کے لیے مشاورت میں شامل ایک رکن کے مطابق ’ملک میں جمہوریت نہیں ہوگی، بلکہ ملکی نظام شوریٰ یا ایک حکمران کونسل کے زیرانتظام ہو سکتا ہے۔‘
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق تحریک طالبان کے ایک سینیئر رکن وحید اللہ ہاشمی نے بتایا ہے کہ حکومتی نظام ایک کونسل کے تحت ہو سکتا ہے جبکہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ مجموعی طور پر اس کے انچارج یا سربراہ ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہا کہ طالبان اپنی صفوں میں شامل ہونے کے لیے افغان پائلٹوں اور مسلح افواج کے سپاہیوں سے بھی رابطہ کریں گے۔
وحید اللہ ہاشمی نے اقتدار کے ڈھانچے کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے طرزِ اقتدار سے ملتا جلتا ہے۔ اُس وقت طالبان کے سپریم لیڈر ملا عمر نے پس پردہ رہ کر روزمرہ کے حکومتی کام ایک کونسل کے سپرد کر رکھے تھے۔
طالبان کے نمائندے نے بتایا کہ ’ہیبت اللہ اخوندزادہ ممکنہ طور پر کونسل کے سربراہ کے اوپر ایک کردار ادا کریں گے جو ملک کے صدر جیسا ہوگا۔‘
انہوں نے انگریزی زبان میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’صدر کا کردار شاید ان کا (ہیبت اللہ اخوندزادہ کا) نائب ادا کرے گا۔‘
وحید اللہ ہاشمی نے وضاحت کی کہ طالبان افغانستان کو کیسے چلائیں گے، اس بارے میں بہت سے معاملات ابھی طے نہیں ہوئے لیکن ’افغانستان میں جمہوریت نہیں ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں کوئی جمہوری نظام نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہم اس بات پر بحث نہیں کریں گے کہ ہمیں افغانستان میں کس قسم کا سیاسی نظام لاگو کرنا چاہیے کیونکہ یہ واضح ہے کہ شرعی قانون موجود ہے اور یہی ہو گا۔‘
ہاشمی نے مزید بتایا کہ وہ طالبان قیادت کی اس میٹنگ میں شامل ہوں گے جس میں اس ہفتے کے آخر میں گورننس کے مسائل پر بات ہوگی۔
حال ہی میں معزول ہو جانے والی افغان حکومت کے لیے لڑنے والے فوجیوں اور پائلٹوں کو بھرتی کرنےسے متعلق انہوں نے کہا کہ طالبان کا ایک نئی قومی فورس قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے جس میں اس کے اپنے ارکان کے ساتھ ساتھ سرکاری فوجی بھی شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔