جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان کا اصل مسئلہ
Reading Time: 4 minutes"اسٹیبلشمنٹ کا موقف”
مقصد یہاں devil’s advocate بننا نہیں ہے۔ ہمارے ڈیول کو ایڈووکیٹس کی کوئی کمی نہیں ماشاءاللہ۔ لیکن تنخواہ دار میٹھا اتنا تیز رکھتے ہیں کہ چائے کا اصل ذائقہ ہی مارا جاتا ہے۔ سیم پیج والوں کے درمیان جو کشمکش جاری ہے اسے بہتر طور پر سمجھنے کیلئے devil کو اس کا due دینا بھی ضروری ہے۔
ایک تو کچھ اینٹی اسٹیبلشمنٹ حلقوں کی جانب سے کافی عرصے سے یہ بات پھیلائی جا رہی تھی، اب کچھ پی ٹی آئی کے حامی بھی دبے لفظوں میں اس کا ذکر کرنے لگے ہیں کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے درمیان کوئی سرد جنگ یا کھینچا تانی پائی جاتی ہے۔ جس میں خان صاحب بھی جنرل فیض حمید کے ساتھ ہیں۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ موجودہ ہائبرڈ پراجیکٹ کے آرکیٹیکٹ اگر جنرل باجوہ ہیں تو پراجیکٹ منیجر جنرل فیض حمید۔ سروس اور سیاست سے ہٹ کر ان دونوں میں ایک گہرا خاندانی تعلق بھی ہے۔ تو جنرل فیض جو کچھ بھی کرتے ہیں، جنرل باجوہ کی رضامندی سے کرتے ہیں۔ ڈی جی آئی کو اگر اپنے چیف کی خوشنودی حاصل نہ ہو تو وہ عملاً صدر مملکت کی طرح نمائشی عہدہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس سے نیچے چھ میجر جنرل ہوتے ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا بگ باس کون ہے؟
تو موجودہ صورتحال عمران خان بمقابلہ جنرل باجوہ ہے۔ جنرل فیض حمید اس میں اپنے باس کے ساتھ ہیں۔ اس کے برعکس کوئی کچھ بھی بتائے، اس پر یقین مت کریں۔
نیز اسٹیبلشمنٹ کا موقف یہ ہے کہ ڈی جی آئی کی ٹرانسفر اور نئی تعیناتی کا معاملہ جنرل باجوہ اکتوبر سے کئی ماہ پہلے سے، کم از کم تین مواقع پر وزیراعظم کے سامنے رکھ چکے ہیں۔ تینوں مرتبہ خان صاحب نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے …
” اوئی اللہ! لوگ کیا کہیں گے”
"آپ کے گھر والے مان جائیں گے کیا؟”
"سوچ کر بتاؤں گی” ٹائپ کے جواب دے کر جنرل صاحب کو ٹرخا دیا۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اکتوبر کی پہلی تاریخوں میں جنرل صاحب وزیراعظم سے ملے۔ اس بار انہیں یہ بتایا کہ وہ ڈی جی آئی کا تبادلہ کرنے جا رہے ہیں، ساتھ ہی دو تین نام بھی بتائے جن میں سے کسی ایک کو وہ اس عہدے پر تعینات کرنا چاہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ انہیں جنرل ندیم انجم سب سے موزوں لگے ہیں۔
اس بار خان صاحب نے بھی شرم حیا بالائے طاق رکھی اور فرمایا کہ وہ جنرل فیض حمید ہی کو ڈی جی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب ان سے وجوہات پوچھی گئیں تو خان صاحب کی یاہریاں باہریاں جنرل صاحب کو کنونس نہ کر پائیں۔ جنرل باجوہ نے ادارہ جاتی تقاضے سمجھائے اور یہ بتا کر چلے آئے کہ اب تبادلے تو ہونا ہی ہیں۔ آپ مزید غور فرما لیں۔
اب اس کے بعد فہد حسین کے مطابق جنرل صاحب کے متعلقہ سٹاف کو وزیراعظم ہاؤس سے ایک کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ وزیراعظم اس نام پر متفق ہیں جسے جنرل صاحب نے ریکمنڈ کیا ہے۔ دو دن بعد اسی نام کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔
اور یہاں سے وہ ڈرامہ شروع ہوا جو اب ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
اس پہ جاری بحث میں ایک بہت سامنے کی بات جو نظر انداز ہو رہی ہے وہ یہ کہ مسئلہ اب صرف ڈی جی آئی کے عہدے کا نہیں رہا۔ فوج کے کم از کم آٹھ سینئر موسٹ آفیسرز ہیں جنہوں نے چارج چھوڑنا یا/اور نیا چارج سنبھالنا ہے۔ تمام دفتری کاروائی مکمل ہونے کے باوجود وہ سب دس دن سے اپنی نئی ذمہ داریوں کا چارج نہیں لے پا رہے کیونکہ جناب وزیراعظم کی سوئی کسی نامعلوم یا شرمناک مقام پر اٹکی ہوئی ہے۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ فیصلہ ان کا اختیار ہے یا نہیں۔ تاویلیں جو بھی پیش کی جائیں، سچ یہی ہے کہ وزیراعظم ہی فیصلے کا اختیار رکھتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آخر اور کتنے دن چلہ کٹے گا تو فیصلہ ہوگا؟
اصولی طور پر پچھلے ویک اینڈ کے بعد یعنی پیر کے دن فیصلہ ہو جانا چاہئے تھا۔ مطلب جو بھی سانپ نکالنا ہے نکال لیا جاتا۔ اب بات اگلے پیر تک جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
فوج کی پری اینڈ پوسٹ پارٹیشن تاریخ میں ایسا نادر واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا جب اتنے اہم عہدے پر ایسا ڈیڈلاک دیکھا گیا ہو۔ نہ ہی پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ آٹھ دس لیفٹننٹ جنرلز اپنے تقررنامے لئے بیٹھے ہوں اور چارج لینے سے قاصر ہوں۔
بقول بلاول یہاں باجوہ صاحب سے پوچھنا بنتا ہے کہ "تبدیلی پسند آئی؟”
خان صاحب سے تو خیر کچھ بھی پوچھنا، کہنا بیکار ہے۔ یہ وہ تیر ہے جو ترکش میں ہی پڑا رہتا کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔ جناب نے زبردستی کمان میں رکھوایا، چلوایا اور پھر اپنی ب۔۔ میں لے لیا۔ مطلب بغل میں۔
اب وہ کچھ بھی کر لیں ہوں گے ذلیل ہی۔ ان کے اصولی اور آئینی اختیارات سر آنکھوں پر۔ لیکن ان کا استعمال کرنا اب انہیں نہ آتا ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
جرنیلوں کو چھوڑیں، شوکت ترین ہی کو دیکھ لیں۔ جناب امریکا سے واپس پہنچیں گے تو ان کی وزیر خزانہ کے عہدے سے مشیر خزانہ کے عہدے پر تنزلی ہو چکی ہوگی۔ کیونکہ چھ ماہ میں ان کا ہینڈسم باس انہیں سینیٹ کی رکنیت نہیں دلوا سکا۔ آج ان کی مہلت تمام ہوئی۔ اگر عزت غیرت والے ہیں تو استعفیٰ دے دیں گے، اگر پی ٹی آئی والے ہیں تو مشیر کے عہدے پر ہی اکتفا کئے رہیں گے۔
جو بندہ اتنا معمولی سا معاملہ حل کرنے سے قاصر ہے، اس کا خیال ہے کہ فوج اپنی تقرریاں اور تبادلے اس کے حوالے کر دے۔
اس تنازعے کے ساتھ ساتھ جس طرح اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام انہوں نے ایک نام نہاد اتھارٹی کے ساتھ نتھی کیا، جس طرح پنجاب اور اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ میں نعتوں قوالیوں کا سرکلر جاری فرمایا۔ اس سے لگتا ہے کہ جناب فل الیکشن موڈ میں آ چکے ہیں۔ اقتدار قائم رکھنے کے لیے مذہب کا نعرہ لگانا پڑے یا سویلین بالادستی کا۔ موصوف پیچھے نہیں ہٹیں گے۔