میانوالی کے نئے پاکستان میں قانون کے منہ پر تھپڑ
Reading Time: 2 minutesپرانے سے بھی پرانے پاکستان میں منگو کوچوان کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔ ایک روز اس نے دو سواریاں تانگے میں بٹھائیں۔ سواریوں کی گفتگو سے منگو کو ہندوستان میں کسی نئے قانون کی آمد کا پتا چلا جس پر وہ خوشی سے نہال ہو گیا۔
منگو کو نئے قانون کی عمل داری پر موت کی طرح اٹل یقین تھا۔نئے قانون کے نفاذ کا دن آن پہنچا اور منگو تانگا لے کر سواری کا منتظر تھا کہ ایک انگریز نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ سینہ تانے نئے قانون کے رعب سے سرشار منگو کے تیور ہی بدل چکے تھے ۔
کرائے پر تو تجار ہوئی تو انگریز نے منگو کو چھڑی کے اشارے سے نیچے اتر جانے کا اشارہ کیا جس پر منگو نے انگریز کی اچھی خاصی دھلائی کرتے ہوئے سکون کا سانس لیا۔
نئے قانون کے نفاذ کے بعد منگو ہر ظلم سے تحفظ کا ضامن بن چکا تھا۔منگو گورے کو مارتا جا رہا تھا اور ساتھ میں نیا قانون نیا قانون بھی للکارتا گیا۔ اتنے میں پولیس آ پہنچی اور اسے گھسیٹتے ہوئے لے جانے لگی تو راستے میں اور حوالات کی سلاخوں کے پیچھے وہ نیا قانون ، نیا قانون چلاتا رہ گیا، مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
منگو کوچوان ہمیں وزیر اعظم پاکستان کے دورہ میانوالی کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے سے یاد آیا۔
وزیراعظم عمران خان کے آبائی حلقے کے دورے میں جلسہ عام کی سکیورٹ پر مامور پولیس اہلکار نے انصاف کے علمبردار ایک مقامی دولتمند عہدیدار کو چیکنگ کے روکنا چاہا تو اس نے پنجاب پولیس کے منگو کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔
اہلکار بھی شاید نئے پاکستان میں نافذ نئے قانون کے نعروں کی اصلیت جاننا چاہتا تھا تبھی اس نے طاقتور کو روکنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے پنڈال میں سر عام بے عزتی کروا لی۔
اس تھپڑ کی گونج نئے پاکستان کے ضلع میانوالی کی سر زمین سے لے کر پولیس کی بیرکوں تک پہنچی ہو گی لیکن اسے سن صرف منگو تانگے والا ہی سکتا ہے۔
پولیس افسران تو بس طاقتور کی ہیبت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔
قانون والے کو پڑتے تھپڑ کی گونج میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والے وزیر اعظم کے ساتھ محکمہ پولیس کے بڑے بھی امتحان سے دوچار رہیں گے اور نئے پاکستان پر عام آدمی کا اعتماد و یقین متزلزل ہی رہے گا۔