اہم خبریں کالم

کرپٹو کرنسی پر پابندی سے مستقبل میں سرمایہ کاری کہاں؟

جنوری 13, 2022 3 min

کرپٹو کرنسی پر پابندی سے مستقبل میں سرمایہ کاری کہاں؟

Reading Time: 3 minutes

محمد اشفاق . تجزیہ کار

اب تک آپ لوگ جان ہی چکے ہوں گے کہ سندھ ہائیکورٹ نے جو کمیٹی تشکیل دی تھی، اس نے کرپٹو کرنسیز پہ پابندی لگانے کی سفارش کر دی ہے۔

سٹیٹ بنک کی ڈپٹی گورنر کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی میں سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، وزارت خزانہ اور ایف آئی اے کے نمائندے شامل تھے۔ پیٹیشنر وقار ذکاء بھی کمیٹی کا حصہ تھے، مگر بظاہر وہ دیگر ممبران کو قائل نہ کر پائے۔

گیند اب وزارت خزانہ اور وزارت قانون کی مشترکہ کمیٹی کی کورٹ میں ہے، جس نے دو ماہ میں اپنی رپورٹ سندھ ہائیکورٹ جمع کروانی ہے۔ اب بہت کم امکان رہ گیا ہے کہ پابندی کے علاوہ کوئی اور فیصلہ آئے۔

اس پر ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ شاید عدالت میں پیٹیشن دائر کرنا ہی غلطی تھی۔ ریاستی ادارے خاموش بیٹھے تھے مگر پیٹیشن سوئے ہوئے شیر کو جگانے کا باعث بن گئی۔ میرا خیال ہے کہ وقار ذکاء تو نیک نیتی سے ہی عدالت گئے تھے، مگر عدالت کیلئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ حکومتی مؤقف سنے سمجھے بغیر کوئی فیصلہ دیتی۔ اور کسی بھی ترقی پذیر ملک کا مرکزی بنک کرپٹو کے حق میں سفارش کبھی نہیں کرے گا۔

کرپٹو پہ پابندی کی صورت میں پاکستان ایسا کرنے والا دنیا کا چھیالیسواں ملک ہوگا۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ بھارت ہم سے کچھ پہلے یا بعد میں اپنے ہاں کرپٹو بین کر دے۔ ان کا ریزرو بنک بھی پابندی کی سفارش کر چکا۔ حکومت پارلیمنٹ کے پچھلے سیشن میں قانون لانا چاہ رہی تھی مگر مزید غوروخوض کیلئے اسے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

بھارت میں کچھ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ پابندی کی بجائے کرپٹو پہ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس لگا دیے جائیں۔ پاکستان میں بھی کچھ لوگ ایسا ہی کہہ رہے۔ مگر عملاً ایسا ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے جہاں بھی حکومت کو پکارا گیا، وہاں کرپٹو پر پابندی ہی لگی۔

کرپٹو کرنسیوں پہ ویسے بھی برا وقت چل رہا ہے۔ آئے روز ایک نیا سکینڈل سامنے آ رہا۔ کل ہی کم کارڈیشیئن اور باکسر مے ویدر پہ کیس دائر کیا گیا ہے۔ دونوں نے ایتھریم مکس نامی کرپٹو کرنسی کو پروموٹ کیا تھا جس کی حالیہ قدر صفر سے بھی نیچے گر چکی۔ ہر چند دن بعد ایسا ایک نہ ایک جھٹکا کرپٹو کو سہنا پڑتا ہے۔

چین اور دیگر چوالیس ممالک کے ساتھ اگر پاکستان اور بھارت بھی شامل کر لئے جائیں تو چند ماہ میں دنیا کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کرپٹو سے ناطہ توڑ چکی ہوگی۔ یورپ میں مالیاتی امور کے ماہرین بھی یورپی یونین کو اپنی پالیسی سخت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

ایسے میں اب وقار ذکاء کی زیر قیادت ہمارے کرپٹو بروز "ٹیکنالوجی موومنٹ” کے نام سے اسلام آباد دھرنا دینے کی تیاری کر رہے۔

مضحکہ خیز بات ایک تو یہ کہ ہمارے کرپٹو انویسٹرز کی اکثریت کو کرپٹو کی انڈرلائنگ ٹیکنالوجی کا نہ تو کوئی خاص علم ہے اور نہ انہیں اس میں کوئی خاص دلچسپی۔ اور دوسری یہ کہ آج کل ایف آئی اے سرگرمی سے کرپٹو ٹریڈرز کو ڈھونڈتی پھر رہی، تو دھرنے کے شرکاء کے دھر لئے جانے کا امکان بھی کافی روشن ہے۔

جس دن ہمارے نوجوان اے آئی، کوانٹم کمپیوٹنگ یا روبوٹکس جیسی ٹیکنالوجیز کیلئے دھرنے دینے لگ پڑے، شاید ان کی تقدیر بدل جائے۔ فی الحال جیسی ترجیحات ہیں، تقدیر بھی ویسی ہی رہے گی۔

ذاتی طور پہ کرپٹو کا سخت ناقد ہونے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ حکومت چھوٹے/ ریٹیل انویسٹرز کیلئے سرمایہ کاری کا آخری راستہ بھی بند کر رہی ہے۔

پہلے بھی کئی بار کہہ چکا، اس ملک میں اب رئیل اسٹیٹ میں چالیس پچاس لاکھ سے کم رقم سے سرمایہ کاری تقریباً ناممکن ہو چکی۔ لوئر مڈل کلاس کے لیے بنک اکاؤنٹ کھلوانا اور/ یا اس میں دس پندرہ لاکھ جمع کروانا، قومی بچت کی سکیموں میں سرمایہ کاری، اور سٹاک مارکیٹ کے کسی بروکریج ہاؤس میں اکاؤنٹ کھلوانا انتہائی دشوار بنا دیا گیا ہے۔ مالیاتی ادارے آپ کو چور ڈاکو سمجھ کر آپ سے تفتیش کرتے ہیں۔ بروکریج ہاؤسز کے ایجنٹس اب لوگوں سے انکم ٹیکس ریٹرن بھی مانگتے پھر رہے، جو سراسر غیرقانونی ہے۔

تو ان دو ماہ میں کرپٹو پر پابندی لگانے سے پہلے حکومت محدود آمدنی والے طبقات کے لیے سرمایہ کاری کی کوئی ایک راہ تو آسان بنا دے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ کی حد رکھ دی جانی چاہئے۔ اس سے اوپر اگر کوئی پیسہ لے کر آتا ہے تو آپ شوق سے تفتیش فرماتے رہیں۔ اس سے کم رقم والوں کو تنگ نہیں کیا جانا چاہئے۔ پیسہ معیشت میں لگتا رہے گا تو حکومت کو بھی کچھ نہ کچھ ملتا ہی رہے گا۔

یہاں امیروں کے لیے حکومتیں نئی سے نئی ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرواتی ہیں جبکہ غریب کے راستے میں کوئی نہ کوئی حکومتی ادارہ ڈنڈا لئے کھڑا ہوتا۔ "کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟”

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے