داخلی محاذ پر دہشت گرد ہمیں کیوں پچھاڑ رہے ہیں؟
Reading Time: 7 minutesگزشتہ دنوں ہم پر بلوچستان اور ایکس فاٹا میں جو حملے ہوئے ہیں، ان میں دو تین عناصر نئے دیکھنے کو ملے ہیں جو پریشان کن ہیں۔
ایک تو دہشتگردوں کے پاس پہلے سے جدید ہتھیاروں کی موجودگی اور دوسرا دہشتگرد کاروائیوں کی وڈیوگرافی۔
امریکی جب عجلت میں افغانستان سے فرار ہوئے، اس وقت انہوں نے اپنے بہت سے ہتھیار تلف کر دیے۔ مگر جلدی میں بہت سے ہتھیار پیچھے رہ جانے کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دوسرا امریکی فوج میں بدعنوانی اور کرپشن بہت زیادہ ہے تو یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ بہت سا اسلحہ بلیک مارکیٹ میں بیچ دیا گیا ہو۔
تیسرا یہ بھی ممکن ہے کہ سوچی سمجھی پالیسی کے تحت بعض گروہوں کو ہتھیار مہیا کیے گئے ہوں۔
چوتھا افغان فوج کو بھی،جو کہ دنیا کی کرپٹ ترین فوج تھی، امریکیوں نے جدید ترین اسلحے سے لیس کر رکھا تھا۔ طالبان کے سامنے سرنڈر کرنے سے پہلے ان کے سینکڑوں کمانڈروں نے جانے کتنے ہتھیار خرد برد کیے ہوں گے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت بلیک مارکیٹ میں جدید ترین ہتھیار نہایت ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ افغان فوج کی اسالٹ رائفل جو پہلے آٹھ دس لاکھ کی تھی اب چار پانچ لاکھ میں مل رہی ہے۔
ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں میں فوج پر حالیہ حملوں میں جدید ترین سنائپر رائفلز کا استعمال کیا ہے۔ یہ ایک نیا ایلیمنٹ ہے۔
خودکش حملوں کی بجائے ٹارگٹ کلنگ ایک مؤثر حکمت عملی ہے۔ اس طرح کولیٹرل ڈیمج کم سے کم رکھ کر وہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کی عوام سے کوئی جنگ نہیں۔
دوسرا کھلے حملے سے پہلے اہم پوزیشنز مثلاً ریکی اور مشین گنز پر تعینات سپاہیوں کو وہ سنائپر کے ذریعے رستے سے ہٹا کر ہمارے جوانوں کی فوری جوابی کاروائی کی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
تیسرا اس حکمت عملی سے ان کے اپنے جانی نقصان کا اندیشہ کم سے کم رہ جاتا ہے۔
چوتھا ان کے تین چار اہم کمانڈرز کو افغانستان میں سنائپرز ہی نے کیفر کردار تک پہنچایا تو وہ بتانا چاہ رہے کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کی اس حکمت عملی کے مقابلے میں ہماری کچھ کمزوریاں بھی عیاں ہوئیں۔
ایک فوری اور بروقت کمک پہنچانے میں ناکامی۔
دوسرا ہیومنٹ یا human intelligence کا فقدان۔
تیسرا جدید ترین نائٹ وژن سے لیس سنائپر رائفلز کی کمی۔
پاک فوج کے پاس جو سنائپر رائفلز ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ ایفیکٹو رینج 1000 میٹر ہے۔ جبکہ جو ٹیلیسکوپ درآمد کی جاتی ہیں وہ نائٹ وژن کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
دوسرا ہماری سنائپرز بنیادی طور پر یوں سمجھیں کہ جی تھری ہی کی امپرووڈ شکل ہیں۔ جی تھری، خصوصاََ پرانی یعنی اخروٹ کی لکڑی کے بٹ اور فور آرم والی، دنیا کی بہترین اسالٹ رائفلز میں سے ایک ہے۔ پلاسٹک کے بٹ اور فور آرم سے گرپ پر تھوڑا فرق پڑتا ہے ورنہ جی تھری اے تھری بھی کارکردگی میں اتنی ہی موثر ہے۔
مگر بات یہ ہے کہ آپ کی سیڈان بھلے مرسیڈیز ہو یا فیراری، اس کی چھت اونچی کرنے یا وڈے والے ٹائر لگا دینے سے وہ ایس یو وی نہیں بن جاتی۔ بالکل اسی طرح جی تھری پر اوپر ٹیلی سکوپ اور نیچے بائی پاڈ لگا دینے سے وہ سنائپر نہیں بنتی۔
جو سنائپر امریکی میرینز کے زیر استعمال ہے، اس کی ایفیکٹو رینج ڈھائی سے تین کلومیٹر ہے۔ اور اگر وہی اب ٹی ٹی پی والے استعمال کر رہے ہیں تو یہ بہت ان فئیر ایڈوانٹیج ہے جو انہیں حاصل ہو گیا ہے۔
مطلب ہمارا اوپی پر تعینات جوان اگر دور گھات لگائے دشمن سنائپر کو ٹیلی سکوپ میں دیکھ بھی لیتا ہے تو جہاں تک اس کی نظر جا رہی ہے وہاں تک اس کی گولی نہیں پہنچے گی۔
ہمیں رشیا یا آسٹریا سے جدید ترین نائٹ وژن سے لیس سنائپرز خرید کر اپنی فارورڈ پوسٹس پر تعینات سپاہیوں کو دینی پڑیں گی۔
روس نے پچھلے سال جو سنائپر DXL5 متعارف کروائی ہے، جسے عرف عام میں havoc کہا جاتا ہے، وہ ساڑھے سات کلومیٹر تک مار کرتی ہے۔ مطلب آپ فیض آباد فلائی اوور پر کھڑے ہوں تو میں کھنہ پل سے آپ کو باآسانی نشانہ بنا سکتا ہوں۔
اب آ جائیں ہیومنٹ humint کی جانب۔ جن دنوں امریکا ڈرون حملے کرتا تھا۔ ان دنوں قبائلی علاقوں میں جاسوس اور مخبروں کی کارکردگی بہت شاندار تھی۔ ہائی ویلیو ٹارگٹس کو تلاش کرنا، ان کی نقل و حمل کی خبر رکھنا، ان کی گاڑیوں یا گھروں پر چپس کی تنصیب۔ یہ سب کام بخوبی ہونے کی وجہ سے ہی ڈرون حملے موثر ثابت ہوتے تھے۔
میں سمجھتا تھا کہ جاسوسی کا یہ جال ہمارا بچھایا ہوا لیکن اب لگتا ہے کہ یہ سب امریکیوں کا کمال تھا۔ ہماری ہیومن انٹیلی جنس کی بلوچستان اور ایکس فاٹا میں آن گراؤنڈ کارکردگی اب تک مایوس کن ہے۔ اس کی ایک وجہ اوپر بیٹھی قیادت کی ترجیحات بھی ہیں۔
جنرل فیض حمید نے افغانستان میں کچھ اچھی گیمیں کھیلی ہیں۔ مگر داخلی محاذ پر ان کی اولین ترجیح بدقسمتی سے سیاست رہی، جس کا ہمیں نقصان ہوا ہے۔ امید ہے نئے سپائی چیف نے اس سے کچھ سبق سیکھا ہوگا۔
حیرت انگیز طور پر ٹی ٹی پی اور بی ایل اے دونوں ہی نے اپنی اپنی تمام حالیہ کاروائیوں کی وڈیوز نشر کی ہیں۔ اس سے جہاں ان کے اعتماد اور منصوبہ بندی کی صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ وہیں پر ہمارے کچھ قدردان ہمسایوں کی مہربانیاں بھی عیاں ہو رہی ہیں۔
بلوچستان اور فاٹا اور ان کے ملحقہ افغان علاقوں میں تیزرفتار انٹرنیٹ دستیاب نہیں۔ بی ایل اے کی تمام سوشل میڈیا ٹیم ایران میں بیٹھی ہوئی ہے۔ وہیں سے وہ اپنی پراپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں اور وہیں سے وڈیو نشر کر رہے ہیں۔
ایسی وڈیوز بھی جاری ہوئی ہیں جن میں سیستان کے سرکاری سکولوں میں ڈاکٹر اللہ نذر اور اس کی بی ایل ایف کے ترانے گائے جا رہے ہیں۔ یعنی ایرانی بلوچ بیلٹ میں انہیں ویسی ہی مقبولیت حاصل ہے جیسی پی ٹی ایم کو پشتون افغانستان میں۔ اور دونوں جگہ یہ حکومتی سرپرستی یا تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
ہمارے دفتر خارجہ نے تو تمام ملبہ افغانستان پرڈال دیا۔ ایران کے بارے میں ایک لفظ کہنے کی ہمت توفیق نہ ہوئی۔ البتہ آئی ایس آئی اور آئی بی ان کاروائیوں کے بعد ہوش میں آئی ہیں۔
تیرہ کے قریب ایرانی ایجنٹس تین بڑے شہروں سے پکڑے گئے ہیں اور ان سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں کراچی سے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے ایک گریڈ انیس کے آفیسر کی گرفتاری بھی ہوئی ہے۔ یہ وصال حیدر کاظمی صاحب مبینہ طور پر ان ایجنٹس میں ایران سے ملنے والے فنڈز تقسیم کرنے کے ذمہ دار تھے۔
اتفاق سے (یا انٹیلیجنس شئیرنگ سے؟) جس دن کاظمی صاحب پکڑے گئے اس سے دو روز بعد ہی ترکی میں بھی درجن بھر ایرانی ایجنٹس گرفتار ہوئے ہیں۔ جو ترکی کے دورے پر آئے ہوئے ایک ارب پتی اسرائیلی بزنس مین کو ہلاک کرنا چاہتے تھے۔
ایران اپنے تمام ہمسایوں بلکہ ساری دنیا ہی کیلئے pain in the a•s کا درجہ رکھتا ہے۔ اب ان کے وزیر داخلہ واحدی صاحب پاکستان تشریف لا ئے ہیں۔
واحدی صاحب بھی پاسداران کے کمانڈر رہے ہیں اور امریکا کو مطلوب دہشتگردوں کی لسٹ میں شامل ہیں۔ آپ سے کچھ دن پہلے ہی سعودی وزیرِ خارجہ پاکستان کا دورہ کر کے گئے ہیں اور غالباً اسی لئے واحدی صاحب بھاگم بھاگ پاکستان پہنچے ہیں۔
سننے میں آ رہا کہ سعودی وزیرِ خارجہ نے ایک بریگیڈ فوج مانگی ہے جسے ریاض میں تعینات کیا جانا ہے۔ مقصد تربیت مہیا کرنا بتایا جا رہا مگر تربیت دینے کیلئے ایک بریگیڈ کوئی نہیں مانگتا۔ غالباً ہمارا بریگیڈ وہاں پہنچنے پر وہاں سے سعودی اپنے کچھ دستے یمن بھجوانا چاہتے ہیں۔
اور شاید اسی پر ایران کو مروڑ اٹھے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں سخت الفاظ میں پیغام دیا جائے کہ بلوچی علیحدگی پسندوں کو وہ اپنی سرزمین سے نکال باہر کریں۔ لیکن یہ سخت پیغام ہمارے شیخ صاحب کے بس کی بات نہیں۔
جناب وزیراعظم نے اپنے پہلے سال دورہ ایران پر اعلانیہ اعتراف فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرزمین ایران میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ مگر جب ایران کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوتی ہے تو جناب سکوت فرما لیتے ہیں۔
بہتر ہوتا کہ ہمارے آرمی چیف یا سپائی چیف ایرانی وزیر داخلہ سے ملتے اور انہیں کچھ کھٹی میٹھی سناتے۔ سپائی چیف مگر بعض خبروں کے مطابق ترکی میں پائے جاتے ہیں جہاں وہ شمالی اتحاد کے قائدین سے ملاقاتیں کر رہے۔ وجہ یقیناً خطے خصوصاً افغانستان کی بدلتی صورتحال ہی ہوگی۔
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کابل پر طالبان کے ٹیک اوور سے دو دن پہلے بھی شمالی اتحاد کی قیادت اسلام آباد بلائی گئی تھی۔ پاکستان یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح طالبان اور شمالی اتحاد میں غلط فہمیاں کم ہوں تاکہ ایسی وسیع البنیاد حکومت بن سکے جسے عالمی برادری کو قبول کرنے میں آسانی ہو۔
مگر اسی دوران اشرف غنی نوٹوں کا سوٹ کیس لے کر بھاگ کھڑے ہوئے اور طالبان کو وہ سویپنگ وکٹری مل گئی جس کے بعد ان کے پاؤں ہی زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔
تب پاؤں نہیں ٹکتے تھے، اب ٹانگیں اوپر ہیں۔ نہ تو وہ اپنے اعلانیہ دشمن آئی ایس کے خلاف کوئی موثر کاروائی کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ نہ ٹی ٹی پی اور اے کیو کے خلاف کچھ کرنے کو ان کا جی چاہتا۔ ٹی آئی ایم چونکہ ٹی ٹی پی اور اے کیو دونوں ہی سے خوشگوار تعلقات رکھتی ہے تو چین سے کروڑوں ڈالر بٹورنے کے باوجود وہ اس کے خلاف بھی کچھ نہیں کر رہے۔ اب انہیں چار پیسے ہاتھ لگے ہیں تو ممکن ہے کچھ جان میں جان پڑے۔
چند ہفتے پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ "افغانستان کا کسی ایک مرکزی حکومت کے تحت رہنا ناممکن ہے”
اسے تجزیہ نہیں پلاننگ سمجھا جائے۔ پاکستان اور خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کافی حد تک اس پلاننگ اور اس کے ساتھ ساتھ چین کا راستہ روکنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کا تو خیر اللہ ہی حافظ ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کو بندروں کی طرح ایک شاخ سے دوسری پر چھلانگیں لگاتا دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کس قدر احمق اور گھٹیا لوگ ہمارے نصیب میں لکھے ہیں۔ چار سال بعد جنہیں ہوشیاری آ رہی ہے اور یہ بھی اوپر سے صرف ایک گھرکی کی مار ہے۔
گیدڑوں کا غول جو شیر کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا کہ وہ انہیں ہڈیاں چچوڑنے کی اجازت دے دے۔
جناب وزیراعظم اور ان کی لائق فائق کابینہ کو تو اب کچھ کہنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔
تو پہلے بھی جو ہو رہا تھا وہ فوج ہی کر رہی تھی اور آگے بھی جو ہونا ہے وہ فوج ہی نے کرنا ہے۔
ہمیں اگلا آرمی چیف خالصتاً جنگجو درکار ہے۔ پچھلے 20 برس سے ہمیں یکے بعد دیگرے جو وژنری، درویش، ہینڈسم اور ماہر معاشیات چیفس مل رہے ہیں، پاکستان سنبھالنا اب ان جیسوں کے بس کی بات نہیں رہی۔