کالم

یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ پہلی قسط

مارچ 2, 2022 7 min

یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ پہلی قسط

Reading Time: 7 minutes

اگر زیر نظر کالم کے عنوان سے آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس میں روس کے یوکرین پر حالیہ حملے کی روداد، یا یہ تفصیل ہوگی کہ روسی فوجیں اس وقت کہاں کہاں خیمے گاڑ رہی ہیں اور کہاں کہاں پیش قدمی کر رہی ہیں۔ اس کے پاس کونسے ہتھیار ہیں، اور ان ہتھیاروں کا یوکرین کے پاس کیا توڑ ہے ؟ تو ایسا نہیں ہے۔ اس قسطوار کالم میں اس سے زیادہ بڑا معاملہ زیر بحث آ رہا ہے۔ وہ معاملہ جسے پوری طرح سمجھنے کے بعد آپ کو کبھی بھی ایسے تنازعات کے فہم میں مشکل پیش نہ آئے گی جن کا ایک فریق روس ہو۔ یہ موضوع ہی ایسا ہے کہ آنے والی سطور میں ادب اور فلسفہ زیر بحث ہوگا۔ اور یہ دونوں چیزیں ذائقے اور ساخت میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ ادب ایک تر بلکہ تربتر جنس ہے جبکہ فلسفہ جو کی روٹی جیسی خشک اور بدذائقہ شئی۔ بتا نہیں سکتے کہ اس کے لئے "شئی” لفظ کا استعمال کس قدر لطف انگیز ہے۔ آپ ان دونوں کی تاثیر ہی دیکھ لیجئےکہ ادب نواز تو ہمیشہ دلچسپ شخصیت کا مالک نظر آئے گا، مگر فلسفے کا مارا جیسے ستر ماؤں کی بددعاؤں کا مارا۔ ہم نے اپنی پوری حیات میں استاد محترم احمد جاوید اور شفیق مکرم قیصر شہزاد کے سوا کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کے بہت قریب آکر بھی فلسفہ اس کا کچھ بگاڑ نہ پایا ہو۔ دونوں ہی صوفی ہیں سو خدا کی حفظ و امان میں ہیں۔ لیکن آپ کو فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس پر تقصیر کو قدرت نے قلم کی نسبت سے جو سب سے بڑی نعمت عطاء کی ہے وہ "تسہیل” ہی ہے۔ بدذائقہ کو خوش ذائقہ، اور خشک کو تر کرنا ہمیں صرف آتا ہی نہیں بلکہ یہ کرنا ہم نے اپنا منشور بنا رکھا ہے۔ یہ احسان خداوندی کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے ہم میں یہ شوق رکھا ہی نہیں کہ محض اس لئے قاری کو گاڑھی اصطلاحات سے گزارکر اس کے دماغ کا دہی کریں کہ وہ اس بات کا قائل ہوجائے کہ ہم تو کوئی بڑی توپ قسم کی "علمی آفت” ہیں۔ اسی لئے ہمارا ماٹو ہی یہی ہے "ہم عالم نہیں ہیں” اس ماٹو کے ذریعے درحقیقت ہم یہی عرض کرتے ہیں کہ ہم دماغ کا دہی کرنے والوں میں سے نہیں۔ سو اس تحریر کے کبابوں میں اولا تو فلسفیانہ اصطلاحات کی کوئی ہڈی ہوگی نہیں۔ اور اگر کسی جگہ بامر مجبوری شامل کرنی بھی پڑی تو وعدہ کرتے ہیں کہ اسے اتنا نرم کردیں گے کہ لطف آپ کو بندوخاں کے کبابوں کا ہی ملے گا۔

کسی بھی ناول کو آپ تب تک نہیں سمجھ سکتے جب تک آپ اسے لکھنے والے کو نہ سمجھ لیں۔ اور لکھنے والے ادیب کو آپ تب تک نہیں سمجھ سکتے جب تک اس کے ملک کے اس دور کے سیاسی و سماجی ماحول کو نہ سمجھ لیں جس دور میں وہ شاہکار لکھا گیا۔ کیونکہ ادیب کی فکری ساخت نتیجہ ہوتی ہے اس کے گرد و پیش کے احوال کا۔ مثلا یہی دیکھ لیجئے کہ ہمارے نام نہاد ادیب اسی لئے تو فکری غلام ہیں کہ ان کی پیدائش اس خطے میں ہوئی ہے جہاں برٹش استعمار کی غلامی ذہنی طور پر قبول کرلی گئی تھی۔ ان سطور میں چونکہ دنیائے ادب کے دو عظیم ناول نگار لیو ٹالسٹائی اور فیودور دوستوئیسکی زیر بحث ہیں اور دونوں روسی ہیں سو ہمیں پہلے ان کا پس منظر جاننا ہے۔ اس باب میں خوش قسمتی ہماری یہ ہے کہ دونوں کا مکان ہی نہیں بلکہ زمان بھی ایک ہے۔ یعنی مولانا آزاد کی ترکیب کے مطابق یہ دونوں بیک ظرف و زمان جمع تھے۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ دونوں طویل عرصہ سینٹ پیٹرزبرگ میں رہے۔ اور پھر بھی دونوں میں کوئی ملاقات نہ ہوسکی۔ ڈوستوئیسکی نے ملاقات کے لئے وقت مانگا تھا، مگر ٹالسٹائی اسے جانتا نہیں تھا سو اس نے یہ سوچ کر ملنے سے انکار کردیا کہ "کوئی فیس بکیا ہوگا جو وقت ضائع کرے گا” البتہ جب دوستوئیسکی کا انتقال ہوگیا اور "فیس بک” پر اس کا صدمہ پھیل گیا تو ٹالسٹائی نے بھی اس کی ایک آدھ "پوسٹ” پڑھ لی کہ ذرا دیکھیں تو سہی کہ شہر میں اتنا ماتم کیوں ہے ؟۔ آپ درست حیران ہیں کہ تب فیس بک کہاں سے آگئی ؟ تب ویب سائٹس اور ایپس واقعی نہ تھیں۔ تب چہرے ہی کتاب ہوا کرتے تھے اور دوستوئیسکی کے جانے کا صدمہ ہر چہرے پر درج تھا۔ دوستوئیسکی کو پڑھنے کے بعد ٹالسٹائی کا جو ردعمل آیا، وہ بذات خود ایک سچی شردھانجلی ہے۔ اس نے لکھا

"میں نے اس شخص کو کبھی نہیں دیکھا۔ اور اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر اب اچانک جب اس کا انتقال ہوگیا ہے تو مجھے سمجھ آیا کہ یہی تو تھا جو میرا سب سے قریبی اور سب سے عزیز ہوسکتا تھا۔ایک ایسا آدمی جس کی موجودگی کی مجھے سب سے زیادہ حاجت تھی۔ میں اسے اپنا دوست مانتا ہوں، اور مجھے کوئی شک نہیں کہ ہم ایک دن ملیں گے”

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹالسٹائی کو دوستوئیسکی کا ناول "جرم و سزا” بالکل پسند نہ آیا تھا۔ اسے کہانی کے انجام نے مایوس کیا تھا۔ ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ آخر میں وہ غریب نوجوان دنیا میں تبدیلی رونما کرے گا، مگر کہانی ختم کچھ اور انداز سے ہوئی۔ البتہ دوستوئیسکی ٹالسٹائی کے اینا کرانینا پر گویا مر ہی مٹا تھا۔ دوستوئیسکی کے الفاظ سے اندازہ لگا لیجئے

"اینا کرانینافن کے لحاظ سے اعلی درجے کا کمال ہے۔ ہمارے دور کا یورپین فکشن اس کے آس پاس بھی نہیں پھٹک سکتا۔ مزید یہ کہ اس کا خیال ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ہمارا ہے، ہمارا۔ ایک ایسی چیز جو صرف ہماری ہے۔ ہماری اپنی پراپرٹی ہے۔ ہمارا اپنا نیا "قومی لفظ” یا اس کا آغاز”

غور کیجئے نہایت بلند قد کاٹھ کے مالک دوستوئیسکی کے لہجے میں کیسا والہانہ پن ہے۔ بالخصوص "ہمارا” پر کس قدر زور ہے۔ وہ اینا کرانینا کو فقط ٹالسٹائی نامی کسی دوسرے شخص کی چیز کے طور پر نہیں دیکھ رہا۔ بلکہ اسے قومی ملکیت کا درجہ دے کر اس کی ملکیت میں حصہ دار بھی بن رہا ہے۔ یہ ہوتا ہے حقیقی ادیب۔ ادیب وہ شخص ہے جو باقی دنیا کے لئےاپنے خطے کا تہذیبی نمائندہ جبکہ اپنے لوگوں کے لئے وہ رہبر ہوتا ہے جو انہیں اپنی تہذیب اور شناخت سے جڑے رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر اس کی ساری وفاداری ہی اپنی تہذیب سے نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کا نگہبان اور امین بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو برٹش استعمار وہ زہر چھوڑ کر گیا ہے جس کا اثر ادب میں بھی یہ ہے کہ ہمارا ادیب ہمارا نمائندہ نہیں بلکہ غیروں کا دلال ہے۔ یہ دوسروں تک مشرقی تہذیب پہنچانے کے بجائے ہم تک مغربی تہذیب لانے کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتایئے ادیب نامی جو مسخرے ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں یہ ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی کے روس میں ہوتے تو ان کا اینا کرانینا سے کیا سلوک ہوتا ؟ یہ تو اسے مسترد ہی اس بنیاد پر کرتے کہ یہ ہمارا ہے۔ ہماری چیز کیسے عظیم ہوسکتی ہے ؟ عظیم چیزیوں کا خالق تو صرف گورا ہوسکتا ہے۔

لیو ٹالسٹائی اور فیودور دوستوئیسکی کی پیدائش ایسے روس میں ہوئی تھی جس کی 90 فیصد آبادی غلامی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ ان غلاموں کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت بھی نہ تھی۔ یہ اسے خدا کی منشاء سمجھ کر قبول کرچکے تھے۔ اوران کے اس تصور کے پیچھے مرکزی کردار اس بات کا تھا کہ زار نے انہیں تعلیم سے محروم رکھا ہوا تھا۔ سو یہ نہیں جانتے کہ خدا کی منشاء "انا بظن عبدی بی” (میں اپنے بندے سے اس کی سوچ کے مطابق پیش آتا ہوں) کے اصول پر چلتی ہے۔ ملک کا انحصار زراعت پر تھا۔ دس فیصد لوگ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، علم اور آسائشیں انہیں کے لئے تھیں۔ خود ٹالسٹائی بھی اشرافیہ کا حصہ تھا۔ ایسے میں 1812ء میں وہاں نپولین آپہنچا۔ اس کی یلغار پانچ ماہ جاری رہی۔ نپولین تنہاء نہیں تھا بلکہ یہ 14 اتحادیوں کے ساتھ آیا تھا۔ یہ مغربی قوموں کی نفسیات ہے کہ یہ ہمیشہ گینگ کی صورت حملہ کرتے ہیں۔ ملک کم، انڈین فلموں کے غنڈے زیادہ لگتے ہیں۔ نپولین کی مسلط کردہ پانچ ماہ کی جنگ میں مجموعی طور پر دونوں جانب کے دس لاکھ افراد مارے گئے۔

جس طرح ہم گلی میں کریکر پھٹنے پر جگہ جگہ ٹولیوں کی صورت لوگوں کو جمع دیکھتے ہیں ،جو یہ گفتگو کرتے ہیں کہ ہمیں اس کریکر کا سامنا کیوں کرنا پڑا ؟ کیا یہ آئندہ بھی ہوگا ؟ اگر ہوگا تو تدارک کیا ہوگا ؟ بعینہ عالمی منظر نامے پر بھی جب جنگ کا کریکر پھٹتا ہے تو حملے کے شکار معاشرے میں "حلقے” بن جاتے ہیں جہاں یہی سوالات ذرا بڑے پیمانے پر زیر بحث آجاتے ہیں۔ سو یہی روس میں ہوا۔ وہاں "حلقے” بن گئے، جس کے نتیجے میں باغیانہ خیالات پکنے شروع ہوئے۔ ایسے میں جب 35 سال بعد ایک اور حملہ عثمانی سلطنت، برطانیہ اور فرانس کے اشتراک سے ہوا تو جلتی پر تیل والا معاملہ ہوگیا۔ یہ ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی کا عہد شباب ہی نہ تھا بلکہ ٹالسٹائی تو اس جنگ میں فوجی کی حیثیت سے لڑا بھی تھا۔ یوں ان دو عظیم ادیبوں نے جنگ کی تباہ کاری، اس کے اسباب، اور نتائج بچشم خود دیکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فوج میں بھرتی دوستوئیسکی بھی ہوا تھا۔ مگر اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے کی نوبت نہ آئی۔ اس زمانے کا راوی بتاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں فوجی وردی اتنی بری کسی بھی انسان کے جسم پر نہ دکھی ہوگی جتنی یہ دوستوئیسکی کے بدن پر دکھتی تھی۔ اسے اس کے زیب تن کرنے کا سلیقہ ہی نہ تھا۔ حتی کہ وہ بندوق بھی لٹھ کی طرح پکڑتا تھا۔

کریمیا کی جنگ 1853 سے 1856 تک جاری تھی۔ مگر قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ نپولین کی مسلط کردہ پانچ ماہ کی جنگ میں دونوں جانب کے مجموعی طور پر دس لاکھ افراد مارے گئے تھے اور روس فاتح رہا تھا۔ جبکہ کریمیا کی جنگ تین سال جاری رہی۔ مگر اس میں دونوں جانب سے مجموعی طور پر پانچ لاکھ افراد مارے گئے تھے۔ اور ان میں سے بھی اکثر وبائی امراض کے ہاتھوں مرے۔ لیکن جنگ کا نتیجہ روس کی شکست کی صورت نکلا تھا۔ یوں اس جنگ نے عوام پر سوچ کے لحاظ سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کئے۔ اب قوم وہ تھی جس کا انپڑھ تصور "خدا کی منشاء” پر قائم تھا۔ چنانچہ انہیں خدا کی یہ والی منشاء بالکل پسند نہ آئی۔ ایسے میں باغیانہ حلقوں نے الحاد کی دعوت پیش کرنی شروع کی تو الحاد تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ انہی حلقوں کی جانب سے یہ تصور بھی سامنے آنا شروع ہوا کہ ہمیں بھی یورپ جیسا بننا ہوگا۔ بالفاظ دیگر وہاں دیسی لبرلز ٹائپ جنس پیدا ہونی شروع ہوگئی۔ رشین سماج میں ہونے والی یہ ٹوٹ پھوٹ بہت ہی قریب اور بہت ہی توجہ سے لیوٹالسٹائی اور فیودور دوستوئیسکی دیکھ رہے تھے۔

(جاری ہے)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے