کالم

پینڈو پروڈکشن، یاماہا اور نواز شریف

جون 24, 2022 4 min

پینڈو پروڈکشن، یاماہا اور نواز شریف

Reading Time: 4 minutes

یاماہا بھی کوئی موٹر سائیکل ہے؟ نواز شریف بھی کوئی لیڈر؟
"یاماہا گجروں اور قصائیوں کی دودھ اور گوشت ڈھونے والی لوڈر زیادہ اور انسانوں کی سواری کم”۔ سکول سے ہی ذہن میں اس موٹر سائیکل کے خلاف نفرت بیٹھ چکی تھی۔

والد صاحب خود سکوٹر چلایا کرتے تھے- ویسپا ان کے زیر استعمال آخری سکوٹر تھا۔ سنہ 1984 میں انجینرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا اور 1985 میں نواز شریف کی غیر جماعتی انتخابات میں ضیاء کے وزیر بلدیات سے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے سول و فوجی ترقی ہوئی۔

سنہ 1984 کے اختتام سے کچھ پہلے والد صاحب سے یونیورسٹی جانے کے لیے موٹر سائیکل کی بے پناہ ضد کے بعد منظوری ہوئی۔ اس زمانے میں پاکستان میں موٹر سائیکل کے چار ہی برانڈ تھے۔ ہونڈا، سوزوکی، کاواساکی اور یاماہا۔

ان میں سے سب سے بری مجھے سکول کے زمانے سے ہی "یاماہا گجر” لگتی تھی۔ ہونڈا پیٹرول کی بچت ضرور کرتی تھی لیکن بھاگنے میں سب سے ماٹھی۔ شکل صورت میں کاواساکی ہی سب سے سیکسی لگتی تھی۔ کئی روز والد صاحب کو کاواساکی پر قائل کیا اور لاہور کی موٹر سائیکل مارکیٹ میں والد صاحب کے ہمراہ چلے گئے۔

سوزوکی والے ڈیلر نے اپنی موٹر سائیکل کی خوبیاں گنوائیں اور یاماہا میں خوب کیڑے نکالے کہ آج کل اسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ہونڈا والے کے پاس واحد دلیل ایک لیٹر میں ستر 80 کلومیٹر والی تھی، اور یہ کہ سٹوڈنٹ یہی افورڈ کرتے ہیں۔ وہاں سے والد صاحب کا ہاتھ کھینچا اور کاواساکی کے ڈیلر کے پاس چلا گیا۔ اس کے پاس اپنے برانڈ کے لیے شائد کوئی بھی دلیل نہیں تهی۔ اس لیے اس نے تمہید ہی یاماہا کی بدتعریفی سے شروع کی کہ سائیڈ کور چوری ہو جاتے کمپنی والے پٹرول پر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ اور اس میں طرح طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ ہم کاواساکی اس سے ہزار روپے کم میں دیتے ہیں (اس وقت ان کی قیمتیں 12 اور 15 ہزار کے درمیان تھیں) اور میں آپ کو اس میں کئی ایکسٹرا بھی فری میں دوں گا۔

قریب تھے کہ اسے نئے موٹر سائیکل کا آرڈر دیتے – والد صاحب کہنے لگے کہ ایک مرتبہ یاماہا والے سے بھی تو پوچھ لیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی والد صاحب کی ہاں میں ہاں ملا دی۔

ہمارے پاس بھی یاماہا کے خلاف بے شمار دلائل اکٹھے ہو چکے تھے۔ یاماہا والے کے پاس گئے اور موٹر سائیکل کی بابت پوچھا تو کہنے لگا قیمت بھی کم نہیں ہو گی اور ساتھ کچھ ایکسٹرا بھی نہیں ملے گا۔

پوچھا کہ تمہاری اس بد شکل گجر سواری میں کیا خاصیت ہے جو تم اتنے اکڑ رہے ہو۔
ڈیلر کہنے لگا کہ آپ کسی بھی برانڈ کی موٹرسائیکل والے ڈیلر کے پاس چلے جائیں، اس کے اپنے استعمال میں یاماہا ہی ہو گی۔

یہ ایک چھوٹی سی دلیل اتنی بھاری تھی کہ مجھے یاماہا کے خلاف تمام دلائل بھول چکے تھے۔

والد صاحب کے پاس قیمت سے دو ہزار کم بھی تھے – مجھ سے کہنے لگے کہ اگلی تنخواہ آنے والی ہے ، انتظار نہ کر لیں ایک ہی مرتبہ یاماہا خریدیں گے۔ کوئی جوابی دلیل نہ ہونے پر میں نے بھی حامی بھر لی کہ ایک ہی مرتبہ اچھی شے لیں گے۔

میں نے آج تک نواز شریف کو ووٹ نہیں دیا سنہ 2000 تک اس کا ڈٹ کے مخالف تھا۔ صرف 1988 میں ایک مرتبہ اس اتحاد کو ووٹ دیا تھا کہ جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ تھی ورنہ ہم نواز شریف پر چار حرف بے شمار کے قائل تھے۔

اس کے بعد بھی مجھ پر مزید ایک مرتبہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کی نوبت آئی۔ اس میں جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہ تھی اور مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دیا۔
پھر دیس نکالا مل گیا اور کوئی سنہ 2004 تک اسلامی نظام میں ہی پاکستان کا حل دیکھتا رہا (یعنی حل صرف جماعت اسلامی) –

سنہ 2013 کے انتخاب میں بھی پاکستان ہوتا تو ووٹ عمران کو ہی دیتا۔ سنہ 2014 سے 2016 تک معاشی سیاست کو سمجھ چکا تھا اور پاکستان کے گورکھ دھندوں کو بھی۔

آج سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں تو سب لیڈر خود یاماہا پروگرام کو ہی نہ چاہتے ہوئے بھی چلا رہے ہیں، کہ ان کے پاس کوئی بہتر پروگرام نہیں جبکہ سب اپنی توپوں کا رخ بھی یاماہا کے خلاف کر کے بیٹھے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک ادھیڑ عمر کے ادھڑے ہوئے صاحب (حسن ظن کہہ لیں کہ وہ بغض نواز میں نہیں ہیں) نے لکھا کہ کوئی چار پانچ صحافی ایسے ہیں کہ جو نواز شریف سے پیسے لے کر اس کے گن گا رہے ہیں کہ ان کو نواز شریف کی خامیاں نظر نہیں آتیں جبکہ نواز شریف کے 90 فیصد پینڈو اور غیر تعلیم یافتہ ووٹروں کو حامد میر اور یاسر پیرزادہ نام کے لکھاریوں کا علم بھی نہیں۔

نواز شریف ان کا لیڈر شائد نہیں لیکن ان کے مسائل کا قدرے حل۔ نواز شریف کا برانڈ چل جانے کی سب سے بڑی وجہ اور دلیل یہی ہے کہ کابینہ اجلاس کا کینہ نواز شریف سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم۔ کاواساکی برانڈ والے اہل یوتھ عمران کا نام کم لیتے ہیں، نواز شریف کا زیادہ۔

یقین نہ آئے تو کسی واٹس ایپ گروپ میں خود تجزیہ کر لیں۔ سوزوکی برانڈ والے جو آج بھی زندہ بھٹو کی چنگچی کھینچ رہے ہیں۔ ان کی روٹی بھی نواز شریف پر پھبتی کسے بغیر ہضم نہیں ہوتی۔
شاید اس لیے کہہ کے بھی وہ یاماہا معیار کی کوئی موٹر سائیکل نہیں بنا سکے۔
قصہ مختصر، یاماہا بھی کوئی موٹر سائیکل ہے؟ نواز شریف بھی کوئی لیڈر؟

اس پر ایک پٹوارن کا کمنٹ تھا کہ:

بالکل نواز شریف کے پاس ہمارے مسائل کا حل ہے۔ اسے لیڈر نہ کہیں, اسے میکنک کہیں۔ میرے ابا اسے لوہار کہتے تھے۔ وہ ,وہ لوہار ہے جو جانتا ہے کہ توھرا کہاں مارنا ہے۔

یہ جملہ کہ 30 کھاتا ہے تو 70 لگاتا بھی تو ہے میں نے سب سے پہلے بولا۔

کیونکہ کمیشن آپ بھی جانتے ہیں دنیا کی کون سی فرم نہیں لیتی۔ پاکستان میں ایک بڑا بندہ بتا دیں جو کامیاب ہوا تو اس کے ارد گرد اس کے عزیز رشتہ دار, گاؤں دیہات, اور حتی کے اس کی ذات برداری کے لوگوں نے فائدہ نہ اٹھایا ہو۔

اب تو سنا ہے کہ نیازی نے اپنی پارٹی کے جملہ حقوق بھانجے کے نام کر دیے ہیں۔

لیڈر سوچ بدلتا ہے,کس نے بدلی سوچ؟ کلام صاحب اور جناح صاحب میں فرق کیا ہے؟
خواب بیچنے اور حقیقت دکھانے کا۔ اور آج کا دور مجھے نہیں لگتا کسی لیڈری کا دور ہے۔ آج سب کو اپنے روز کے پرسکون کھانے پینے، بجلی گیس کے بلوں کی فکر ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے