منجمد افغان اثاثوں کی بحالی، طالبان اور امریکہ میں مذاکرات شروع
Reading Time: 2 minutesافغانستان کے منجمند اثاثے بحال کرنے لیے امریکہ اور طالبان حکام کے درمیان مذاکرات قطر میں ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ فنڈز کی بحالی کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے تاہم افغان مرکزی بینک کے بورڈ کے رکن کا کہنا ہے کہ حتمی مراحل طے کرنے میں دیر لگ سکتی ہے۔
طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی، وزارت خارجہ اور مرکزی بینک کے عہدیداروں کے ہمراہ مذاکرات کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ٹام ویسٹ مذاکرات کا حصہ ہوں گے اور اس دوران افغانستان میں انسانی حقوق اور بچیوں کے سکول کھولنے کے علاوہ دیگر معاملات بھی زیر غور آئیں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ افغان عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کا مطلب طالبان یا ان کی ’نام نہاد حکومت‘ کو تسلیم کرنا نہیں ہے بلکہ امریکی مفادات کے حصول کے لیے مذاکرات کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
اگست 2021 میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد افغانستان کے 7 ارب ڈالر کے اثاثے امریکہ نے منجمند کر دیے تھے جبکہ بین الاقوامی کمیونٹی نے مالی امداد کی براہ راست فراہمی پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
عالمی امداد میسر نہ ہونے کے باعث افغانستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے جبکہ روزگار کے مواقع نہ ہونے کی صورت میں بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان میں آنے والے شدید زلزلے سے پیدا ہونے والی انسانی صورتحال کے بعد فنڈز جلد از جلد بحال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کا کہنا ہے کہ فنڈز کے درست استعمال کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ طالبان کے بجائے افغان عوام کو فائدہ پہنچے۔
افغان مرکزی بینک کی سپریم کونسل کے رکن شاہ محرابی کے مطابق امریکہ کم از کم ماہانہ 15 کروڑ ڈالر جاری کر سکتا ہے تاکہ درآمدات کے لیے ادائیگیوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی غیر جانبدار آڈٹنگ کمپنی ان فنڈز کو مانیٹر کر سکتی ہے اور غلط استعمال کی صورت میں ان کی فراہمی معطل کی جا سکتی ہے۔