کومو اور انٹرلاکن میں قدرت کے حسین مناظر
Reading Time: 12 minutesگذشتہ سے پیوستہ
ہم نے 5 جون بروز اتوار کو میلان کے قریب کومو جانا تھا کہ وہاں کی مشہور جھیل دیکھ سکیں۔ ہفتہ کی رات 2 بجے ہم وینس سے بسانگو اپنے ہوٹل پہنچے تو تھکاوٹ کافی ہو چکی تھی کیونکہ آنے جانے کا سفر اور پھر وینس میں کافی واک نے ہمیں تھکا دیا تھا۔
ہمیں ہوٹل چھوڑتے ہوئے اظہر بھائی اور عدنان بھائی نے بتایا کہ کومو بالکل پاس ہی ہے تو آپ لوگ صبح اپنی مرضی سے اٹھ کر لسونے آ جانا۔ گزشتہ تین دن کے مسلسل سفر اور واک نے ہمیں کافی تھکا دیا تھا تو یہ بات ہمارے لئے کسی خوشخبری سے کم نہ تھی کہ صبح اپنی مرضی سے اٹھیں گے۔ گاڑی سے اتر کر سیدھا روم پہنچے اور چند منٹس میں ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
اتوار کی صبح تقریبا 9 بجے اٹھے اور ناشتہ کر کے تیار ہو کر 11 بجے کے قریب بس کے ذریعہ لسونے روانہ ہو گئے۔ مونزہ پہنچ کر بس سے اترے اور ٹرین میں بیٹھ کر لسونے پینچ گئے۔ لسانگو سے مونزہ تک بس اور پھر 1 سٹیشن ٹرین میں سفر کرنے پر ہم لسونے پہنچ کر ٹرین سے اترے اور اظہر بھائی سے رابطہ کیا تو وہ ہمیں لینے ٹرین سٹیشن آ گئے۔ ہم ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے عدنان بھائی کے گھر کے قریب ہی ایک سپر مارکیٹ چلے گئے جہاں سے کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ فریج سے کٹا ہوا ٹھنڈا سرخ تربوز لیا۔ تربوز لیا تو ہمیں فورا پاکستان میں وائرل ہونے والی ویڈیو یاد آ گئی جس پر سوشل میڈیا پر کافی میم بن چکے ہیں۔ میں اور امیرحمزہ نے تربوز ہاتھ میں پکڑے مارکیٹ کے اندر ہی اسی مشہور میم "لال اے لال اے” پر چند سیکنڈز کی ویڈیو بنائی، جسے دیکھنے کے بعد علی بھائی ہم دونوں پر ہنسنے لگے کیونکہ ہماری ایکٹنگ سکلز کا پول کھل چلا تھا۔
وہاں سے عدنان بھائی کے گھر چلے گئے تو اظہر بھائی اور عدنان بھائی نے کہا کہ آج آپ لوگ ہمارے مہمان ہیں تو آپ لوگوں کو ہم اٹلی کا مشہور پیزہ کھلاتے ہیں، اس کے بعد کومو چلیں گے۔ ہم تربوز کھانے لگے اور یہ دونوں گاڑی میں پیزہ لانے چلے گئے۔ تقریبا 40 منٹس بعد ہاتھ میں مختلف فلیورز کے 7-8 پیزے اٹھائے آ گئے تو میں نے فورا کہا کہ اتنے سارے کون کھائےگا، یہ تو زیادہ ہیں۔ اظہر بھائی نے جواب دیا کہ یہ اٹلی کے پیزے ہیں تو آرام سے کھائے جائیں گے۔ ہم نے پیزے کھائے جو واقعی اتنے مزیدار پیزے تھے کہ میں نے شاید ہی کبھی کھائے ہوں۔ پیزہ کھاتے ہوئے امیرحمزہ نے کہا کہ پاکستان میں "اٹالین پیزہ” کی پوری چین ہے تو بندہ ان سے پوچھیں کہ یہ جو پیزہ آپ بنا کے دیتے ہیں یہ کونسی اٹلی کا ٹیسٹ ہے اور یہ اٹلی دنیا میں کہاں واقع ہے۔ اس بات پر بےاختیار سب نے قہقہہ لگا کر ان کے بات کی تائید کی۔
پیزہ کھانے کے بعد 2 بجے ہم عدنان کے گھر سے کومو کی طرف روانہ ہوئے، جو لسونے سے صرف 30 کلومیٹر دور ایک چھوٹا اور قدرت کے حسین نظاروں میں گرا شہر ہے۔ اگر آپ میلان سے آئیں تو پھر یہ مسافت 50 کلومیٹر کی بنتی ہے۔ اس شہر کی وجہ شہرت یہاں کے دو پہاڑوں کے درمیان گری 46 کلومیٹر لمبی اور 410 میٹر گہری جھیل ہے جہاں ہم نے بھی تیز ہواؤں میں جھولتی فیری کے مزے بھی لئے۔ یہ شہر نیچر سے محبت کرنے والوں کے لئے لاجواب ہے۔ جب ہم کومو پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہوئی۔ گاڑی جھیل کے قریب پارک کر کے ہم اترے اور جھیل کی طرف چلے گئے۔ جھیل کے کنارے ہی پہلی جنگ عظیم کے یادگار کے طور پر بنائی گئی ایک ٹاور نما عمارت نظر آئی، جس کے اوپر یورپ، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے جھنڈے لگے ہوئے تھے۔ ہم نے اس یادگار کے ساتھ تصویریں کھینچی اور بوندا باندی سے محظوظ ہوتے ہوئے جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ اظہر بھائی اور عدنان بھائی چونکہ 5۔6 سال کومو میں رہ چکے ہیں تو گاڑی پارک کرنے کے بعد ہمیں جھیل کے ایسے سائڈ پر لے گئے جہاں سے پہاڑوں کے بیچ گرا جھیل مکمل نظر آتا تھا اور اوپر سے ہلکی ہلکی بوندا باندی اور ہواؤں نے موسم کو بلامبالغہ "قاتل” بنا دیا تھا۔ گرمیوں کے موسم میں بوندا باندی، تیز ہوائیں اور کومو جھیل کا کنارہ پر جب ہم کھڑے تھے تو وہ پیارا منظر تھا جو بیان کرنا مشکل ہے۔
اظہر بھائی نے ہمیں بتایا کہ کومو کے اندر دو تفریحی سرگرمیاں ہو سکتی ہیں۔ یا تو فونیکیولر ریل کے ذریعہ اوپر پہاڑی پر برونیٹ جا سکتے تھے جو ایک چھوٹا سا ٹاؤن ہے اور اوپر پہاڑی پر کئی چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ بنے ہوئے ہیں جہاں بیٹھ کر آپ کومو جھیل اور آس پاس قدرت کے حسین نظاروں کے درمیان کافی یا "مشروب مغرب” کا لطف اٹھا سکتے ہیں.
دوسرا آپشن فیری کے ذریعہ بیلاگو جانے کا تھا۔ بیلاگو کومو جھیل کا وہ خوبصورت مقام ہے جہاں جھیل ایک طرف سوئٹزرلینڈ اور دوسری طرف کومو سے جا کر مل جاتی ہے۔ ہم نے اوپر پہاڑی پر جانے کے بجائے بیلاگو جانے کا پروگرام بنایا تو جھیل کے کنارے واک کرتے دوسری سائڈ پر آ گئے جہاں فیری اور بوٹس کھڑے تھے۔ تب تک ہوائیں کافی تیز ہو چکی تھی۔ ہم نے فیری کے ٹکٹ کا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت خراب موسم کی وجہ سے کوئی بھی فیری بیلاگو نہیں جا رہی ہے۔ بیلاگو نہ جا سکتے کا دکھ سینے میں لئے دوسرے آپشن کا پوچھا تو بتایا گیا کہ آپ لوگوں کو فیری کا ٹکٹ مل سکتا ہے جو بیلاگو سے پہلے ہی ایک مقام تک جائےگی لیکن آپ لوگوں کو فیری سے اترنے کی اجازت نہیں ہوگی اور واپس اسی فیری میں آنا پڑےگا کیونکہ یہ آخری فیری ہے اور پھر آپ کو واپسی کے لئے کوئی دوسری فیری نہیں مل سکتی۔ اسی آپشن کو غنیمت جان کر ہم نے 10 یورو کی ٹکٹیں لیں اور فیری میں سوار ہو گئے۔ چند مقامی افراد جب سوار ہوئے تو فیری اپنے منزل کی جانب روانہ ہوئی۔ اب فیری نے ان مقامی باشندوں کو مختلف سٹیشنوں پر اتارنا تھا اور وہاں پہلے سے گئے سیاحوں کو سوار کرنا تھا۔ تیز ہواؤں میں بارش کبھی تیز ہو جاتی اور کبھی ہلکی اور ہم بھی موج مستی اور تصویریں لینے میں مگن کبھی بارش سے بچنے کے لئے اندر چلے جاتے اور کبھی باہر نکل کر کھلے آسمان تلے کھڑے ہو جاتے۔ فیری مختلف سٹیشن پر رکھتی اور چلتی رہی اور ہمارے علاوہ سب لوگ تبدیل ہوتے رہے، تبھی شاید ملاح نے ہمیں پہچانا اور آخر میں ہمارے ساتھ شرارت کرنے سے بھی باز نہ آیا۔
فیری سب سے پہلے چیرنابیا ٹاؤن جا کر رکھی جہاں ایک قلعہ بھی نظر آیا اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ ملکہ انگلستان کے لئے بنایا گیا تھا۔ کومو لیک کے کنارے جو چھوٹے ٹاؤن بنے تھے وہاں اکثر مالدار لوگوں کی رہائش گاہیں نظر آ رہی تھیں اور جگہ جگہ گھروں کے نیچے چھوٹے پرائیویٹ بوٹس کے لئے پارکنگ بھی بنے ہوئے تھے۔ ہم چلتے چلتے ٹاؤن لینو کے قریب پہنچے اور وہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپس بھی اسی روٹ پہ آئے اور آتے ہوئے بارش بھی رک چکی تھی۔ اب سورج کی کرنیں بھی بادلوں کو چیر کر ہم تک پہنچ رہی تھی جس سے جھیل کا منظر بھی بدل گیا تھا۔ البتہ تیز ہوائیں اب بھی موجود تھیں جس سے جھیل کے اندر لہریں بھی بن رہی تھی۔ جب فیری نے آخری سٹاپ سے سواریوں کو بٹھا دیا تو ہم لوگ ملاح سے آگے فرنٹ پر کھڑے گپ شپ میں مصروف تھے کہ شرارتی ملاح نے یکدم فیری کا رخ لہروں کی طرف موڑا جس سے پانی اٹھا اور فیری کے اندر آ کر ایک ہی لہر میں ہمیں مکمل گیلا کر دیا۔ اس اچانک حملہ پر ہم نے خوب قہقہے لگائے اور باقی ساتھی اندر کی جانب دوڑے جبکہ میں وہی کھڑا رہا کہ اب مزید گیلا ہونے کا امکان نہیں رہا تھا۔ وہاں سے کنارے پر پہنچ کر جب اترے تو تیز ہواؤں کی بدولت کپڑے واپس تقریبا سوکھ چکے تھے۔
فیری سے اتر کر شہر کی طرف گئے اور اظہر بھائی اپنی یادیں تازہ کرتے رہیں کہ اس شہر میں ہم نے کافی ٹائم گزارا ہے اور اکثر عصر کو ہم جھیل کے کنارے آ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جب وہ یہ سنا رہے تھے تو میں ان پر رشک کر رہا تھا کہ کتنی خوبصورت جگہ پر وقت گزارا ہے۔ کیونکہ کومو جھیل کی سیر کے دوران میں اپنے دوستوں کو کہہ چکا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد موکو جھیل کے کنارے رہنا پرفیکٹ ریٹائرمنٹ پلان ہو سکتا ہے۔
ہم شہر سے واپس واک کرتے کرتے جھیل کی طرف آئے اور جھیل کے درمیان جانے والے فٹ پاتھ پر اندر چلے گئے جو جھیل کے بیچ کچھ اندر تک پیدل جانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ وہاں تھوڑی دیر بینچ پر بیٹھے رہے اور جب اندھیرا پھیلنے لگا تو ڈنر کرنے واپس شہر کی طرف چلے گئے۔ شہر میں اسی ہوٹل کا فیصلہ ہوا، جس سے پہلی رات کو کھانا لیا تھا۔ واک کرتے کرتے جب ہوٹل پہنچے تو ہوٹل کا مالک پرتباک انداز میں اظہر بھائی اور عدنان بھائی سے ملے اور اچھے سے حال احوال کے بعد ہم کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔ جب کھانا آیا تو ساتھ ہی مالک بطور مہمان نوازی بھی کچھ چیزیں لایا اور ہمارے سامنے رکھ دیں۔ کھانا کھانے کے بعد ہم باہر نکلے تو اندھیرا چھا چکا تھا اب ہم ایک بار پھر جھیل کی جانب روانہ ہوئے کیونکہ ہماری گاڑی وہی پر پارک تھی۔ ہم رات کی روشنیوں میں جھیل کے کنارے واک کر رہے تھے کہ میرا دل چاہا کہ اس فٹ پاتھ پر ایک بار پھر جھیل کے اندر جاؤں تاکہ شہر سے پڑنے والی روشنیوں کا عکس پانی میں دیکھ سکوں۔ میں اور علی بھائی دوڑ کر اسی طرف گئے اور وہاں کچھ وقت ان روشنیوں سے محظوظ ہوئے کہ باقی ساتھیوں کی کال آ گئی کہ ہم پارکنگ میں آپ لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم فورا پارکنگ پہنچے اور ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ رات 12 بجے کے قریب اظہر بھائی نے ہمیں ہوٹل اتارا اور یہ تاکید کی کہ صبح کسی صورت بھی لیٹ نہیں ہونا کیونکہ ہمارا پلان سیدھا بیلجیئم جانے کے بجائے سوئٹزرلینڈ کے خوبصورت شہر انٹرلاکن سے ہو کر جانے کا ہے جس سے ہمارا سفر 3 گھنٹے بڑھ جائےگا۔ ہوٹل پہنچ کر فورا سو گئے اور ساتھیوں کو سختی سے کہا کہ میں نے صبح جلدی اٹھانا ہے۔
6 جون کو صبح سویرے میٹھی نیند میں سویا تھا کہ میرے موبائل کے الارم سے پہلے 6 بجے امیرحمزہ نے اٹھانا شروع کر دیا۔ میں نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا کہ جسے پورے ٹرپ میں میں اٹھا اٹھا کر تھک جاتا تھا وہ آج 6 بجے کیسے اٹھ کر تیار ہوا ہے۔ میں ابھی حیرانگی میں ہی ڈوبا تھا کہ امیرحمزہ بول پڑا: "اٹھو یار ! سوئٹزرلینڈ نہیں دیکھنا؟ شوق تو قربانی مانگتی ہے اور تم لوگوں سے اٹھا نہیں جا رہا”۔ تب مجھے یاد آیا کہ ہم نے کل ڈیسائڈ کیا تھا کہ لیٹ ہو گئے تو ہمیں پلان تبدیل کرنا پڑےگا کیونکہ پھر انٹرلاکن جانا ممکن نہ ہوگا۔
ہم نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور ہوٹل سے چیک آوٹ کر کے لسونے روانہ ہو گئے۔ لسونے پہنچے تو اظہر بھائی اور عدنان بھائی بھی ٹرین سٹیشن آ گئے۔ ہم نے سامان گاڑی میں رکھا اور تقریبا 10 بجے اٹلی سے بیلجیئم براستہ انٹرلاکن روانہ ہو گئے۔
اٹلی سے نکل کر جب ہم سوئٹزرلینڈ میں داخل ہوئے تو ہر ایک کلومیٹر پر حیرت میں ڈوبتے چلے گئے۔ کیونکہ آتے ہوئے ہم نے اندھیرے میں سوئٹزرلینڈ کو نہیں دیکھا تھا تو اب سوئٹزرلینڈ کی جھیلیں اور خوبصورتی ہمیں حیران کرنے کو موجود تھی۔ اظہر بھائی اور عدنان بھائی نے آپس میں مشورہ کر کے طے کیا کہ ہم ہائی وے کے بجائے پہاڑوں کے بیچ سے انٹرلاکن جائیں گے تاکہ سوئٹزرلینڈ کے خوبصورت پہاڑ بھی دیکھ سکیں۔ اس مشورہ کے بعد انہوں نے ہائی وے چھوڑا اور پہاڑی راستہ پر مڑ گئے۔۔ یہ راستہ کی خوبصورتی شروع میں تو نارمل ہی تھی لیکن 20۔30 کلومیٹر چلنے کے بعد اس علاقے کی الگ خوبصورت نظر آنی شروع ہوئی جو بڑھتی ہی چلی گئی۔ یہی پر ہم نے 17 کلومیٹر طویل "گوٹاڈ” ٹنل کراس کیا تو ان کی انجنئیرنگ کی داد دئیے بنا نہ رہ سکیں کہ کیسے پہاڑی سلسلے کو کاٹ کر 17 کلومیٹر کی طویل سرنگ نکالی گئی ہے۔ سرنگ سے گزر کر ہم اگلے پہاڑوں پر آہستہ آہستہ چڑھنا شروع ہوئے تو آس پاس ہیوی بائکس اور سپورٹس کاروں کی اتنی بھرمار ہوئی کہ مجھے لگا کہ انٹرلاکن میں شاید کوئی مقابلہ ہو رہا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ ان کی روٹین ہے کہ وہ یہ خوبصورت روٹ ہیوی بائکس کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان بائکس پر جوان، بوڑھے، مرد، عورت سب نظر آئے جن میں 60 سالہ بابے سے 18 سال کی لڑکیاں تک موجود تھیں۔ ہم ان بائکس کا خیال کرتے کرتے اوپر جا رہے تھے کہ ایک بائک انتی سپیڈ سے گزری کہ ہم سب چونک گئے اور جب میں نے دیکھا تو ہیلمٹ کے نیچے سے اس حسینہ کے بال لہرا رہے تھے۔ یہ والی شگفتہ میڈم اس پہاڑی راستے پر اتنی تیز گئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی اور میری دلی چاہت کے باوجود میں اس کی دوسری جھلک دیکھنے سے محروم رہا۔
جب اس پہاڑی سلسلے کی چوٹی پر پہنچے تو ایک جگہ پر تصویریں لینے کے لئے تھوڑی دیر رک گئے۔ تھوڑی دیر کھڑے رہے اور پھر تھوڑا آگے جا کر پھر رک گئے جہاں عدنان بھائی بتانے لگے کہ یہ جو چھوٹی سی جھیل چوٹی پر بنی ہے میں نے چند سال قبل بالکل اسی جگہ تصویر کھینچوائی تھی جو اب بھی میرے فیس بک کور فوٹو پر لگی ہے۔ چوٹی پر پھر بائکرز کی ٹولیاں آ جا رہی تھی کہ روڈ کراس کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا لیکن بغیر حفاظتی کٹ کے ہمیں ایک شخص بھی نظر نہیں آیا جو جان کی پرواہ کئے بغیر بائک دوڑا رہا ہو۔ وہاں سے روانہ ہوئے تو نیچے کی جانب اترنے لگے اور جگہ جگہ پہاڑوں سے آبشاریں گر رہی تھیں جبکہ ایک جگہ قریب قریب ہی 7۔8 آبشاریں بھی نظر آئی۔ انٹرلاکن پہنچے تو گاڑی پارک کرنے کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹہ کی واک کا فیصلہ ہوا کہ پھر بیلجیئم روانہ ہو جائیں گے۔
ہم چونکہ لیٹ تھے تو یہ طے ہوا کہ لنچ کرنے کے بجائے گاڑی میں ہی ہلکا پھلکا سنیکس کھاتے رہیں گے اور عصر کو بھوک لگی تو ہائی وے پر کسی جگہ کھانے کے لئے رک جائیں گے۔ میں نے دوستوں کو بتایا کہ 2016 میں جب میں جرمنی آیا تھا تو میرے دوست ڈاکٹر ناصر محمود صاحب تب جرمنی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے، وہ ملنے آئے تو پوچھا کہ کہاں لے کر جاؤں۔ میں نے کہا کہ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ میرا کچھ رزق سوئٹزرلینڈ میں لکھا گیا ہے تو وہ کھانے چلتے ہیں۔ وہ ہمیں زیورخ اور رائن فال لے گئے اور سارا دن گھومنے کے بعد شام کو جب واپس جرمنی کا بارڈر کراس کیا تو وہ کہنے لگے کہ آپ نے سوئٹزرلینڈ میں لکھا اپنا رزق نہیں کھایا کیونکہ تب بھی ہم سارا دن گاڑی میں موجود سنیکس ہی کھاتے رہے جو ہم جرمنی سے ساتھ لے گئے تھے۔ تو میں نے جواب دیا تھا کہ میں سوئٹزرلینڈ میں موجود رزق پھر کبھی کھانے آؤں گا حالانکہ تب مستقبل میں دور دور تک کوئی اسباب نظر نہیں آ رہے تھے۔ لیکن قدرت کا کرشمہ دیکھئیے کہ آج پھر سوئٹزرلینڈ میں موجود ہوں مگر فیصلہ یہی ہوا ہے کہ لنچ یہاں کرنے کے بجائے عصر کو فرانس میں کھانے پینے کا سٹاپ کریں گے۔
میں، امیرحمزہ اور علی نواز جگہ جگہ رک کر تصویریں لیتے رہیں اور اظہر بھائی اور عدنان بھائی کافی آگے چلے گئے۔ واک کرتے کرتے جب کافی وقت تک وہ نظر نہیں آئے تو ہم نے کال کی تو پتہ چلا کہ وہ ہمارا انتظار کرتے رہے اور جب ہم لیٹ ہوئے تو وہ لنچ کرنے میکڈونلڈ چلے گئے۔ ہم ان کے پیچھے میکڈونلڈ پہنچے تو ہمارا بھی کچھ کھانے کا موڈ بنا اور جب کھانا سامنے آیا تو علی بھائی کہنے لگا کہ صادق ! آپ کا یہ رزق سوئٹزرلینڈ میں لکھا تھا جس کے لئے اتنی محنت کرنی پڑی۔
لنچ کر کے انٹرلاکن سے روانہ ہوئے تو تھوڑا آگے جا کر ایکسیڈنٹ کی وجہ سے روڈ جام ملا، آدھا گھنٹہ ٹریفک میں گزارنے کے بعد جب آگے گئے تو ایک ہیوی بائک روڈ پر پڑی تھی اور آس پاس پولیس کی 3۔4 گاڑیاں نظر آ رہی تھی جو کاغذی کاروائی میں مصروف تھے۔
ایکسیڈنٹ دیکھ کر ہم ٹریفک کے رولز ڈسکس کرنے لگے تو ظہر بھائی نے بتایا کہ سوئٹزرلینڈ میں ٹریفک خلاف ورزی کا جرمانہ گاڑی کے ماڈل کے حساب سے متعین کیا جاتا ہے کہ جتنی مہنگی گاڑی ہوگی تو اسی حساب سے جرمانہ دینا پڑےگا۔
اب ذرا ان ملکوں کے ٹیکس سسٹم کا اپنے پاکستان سے موازنہ کریں تو پتہ چلےگا کہ ہمارا غریب اور امیر ایک جیسا ٹیکس دیتا ہے اور پچھلے دنوں 29 جون کو جب موٹروے پولیس نے دو کروڑ سے اوپر کی گاڑی میں بیٹھے شاہد آفریدی کا اوورسپیڈنگ پہ چالان کیا تو پورے 1500 روپے سکہ رائج الوقت ادا کرنے کے بعد شاید وہ پشاور تک پاکستان کے سسٹم پر ہنستے ہوئے گئے ہونگے جہاں ایک ارب پتی شاہد آفریدی اور چند ہزار کمانے والا سکول ٹیچر برابر جرمانہ دیتے ہیں۔
ہم سوئٹزرلینڈ سے عصر کے وقت فرانس میں داخل ہوئے تو کولمار کے پاس جا کر کافی پینے کے لئے رکے اور کافی وغیرہ پی کر بیلجیئم کی طرف جب روانہ ہوئے تو غروب آفتاب کا وقت تھا اور سورج بالکل ہمارے سامنے غروب ہو رہا تھا جس کی زرد شعائیں ہمیں پریشان کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ ہم رات گئے برسلز اپنے ٹھکانے پر پہنچے اور اظہر بھائی نے ہمیں ہاسٹل اتارا اور اپنے گھر چلے۔