اہم خبریں متفرق خبریں

رات کی عدالت، چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کیا کہا؟

جولائی 19, 2022 2 min

رات کی عدالت، چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کیا کہا؟

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی دائر درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیے ہیں۔

منگل کو مقدمے کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے۔

دوران سماعت ایک موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریک انصاف کے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ کہتے ہیں رات کو عدالت نہیں لگتی، آپ کو رات تک سُن لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیر قانون کا کہنا ہے ہر ترمیم کی سپورٹ میں عدالتی فیصلہ ہے، کیا ایسا ہی ہے؟

چیف جسٹس کے استفسار پر پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حیران کن طور پر عجلت میں نیب ترامیم ہوئیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم تو ہیں لیکن ان کے مطابق نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ قانون سازوں کا کام نہیں تھا کہ نیب قانون بنائے جائیں، عدالتوں نے متعدد بار کہا کہ نیب قوانین بنائے جائیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون میں موجودہ ترامیم کر کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں کہ نیب ترامیم سے کونسا بنیادی حق متاثر ہوا، نیب ترامیم میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کی اجازت نہیں دی گئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون بنانا قانون سازوں کا کام ہے، نیب قوانین کا ماضی سے اطلاق کرنا ایک مسئلہ ہے۔

وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالت نے اقوام متحدہ کے اینٹی کرپشن کنونشن کو بھی مدنظر رکھنا ہے، زیادہ کیسز اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثوں کے ہوتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل کے مطابق ترمیم کے بعد کسی کو فائدہ پہنچانے پر کیس نہیں بنے گا، جب تک اختیار استعمال کرنے والا خود فائدہ نہ لے کیس نہیں بن سکے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا قانون سازوں کو ان کا استحقاق استعمال کرنے نہیں دینا چاہیے؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمان کل قرار دے کہ قتل جرم نہیں ہے تو کیا ایسا ہونے دیا جائے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم کو 1985 سے موثر کیا گیا، 2022 کی ترامیم کو ماضی سے موثر کرنے سے پہلے سے پڑے کیسز پر فرق پڑے گا۔

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جہاں کرپشن اور قومی خزانے کا معاملہ ہو وہاں بات بنیادی حقوق کی آتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون کا تعلق صرف پبلک آفس ہولڈرز سے نہیں ہے، سرکار کا کام آگے بڑھنا چاہیے، نیب کے قانون نے بہت سے معاملات میں رکاوٹ بھی پیدا کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خاص طور پر بیوروکرسی پر نیب قانون کا بڑا اثر پڑا ہے، مخصوص فرد کے لیے بنے قانون کو عدالت کالعدم کر سکتی ہے.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے