کالم

اشرافیہ کی خیر ہو

مئی 26, 2023 3 min

اشرافیہ کی خیر ہو

Reading Time: 3 minutes

ترقی پذیر ممالک میں اشرافیہ ایسا طبقہ ہے جو ہمیشہ مزے میں رہتا ہے۔ حکومت ہے یا اپوزیشن دونوں صورتوں میں صرف انجوائے کرتے ہیں۔ اس طبقے کا حکومت ہی نہیں عدلیہ، فوج، بیوروکریسی سمیت ہر طاقت ور شعبہ میں تعلقات ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر چاہے کیسا بھی موسم ہو، کیسے بھی حالات ہوں، ایلیٹ کلاس مزے میں رہتی ہے۔

لگژری لائف گزارنا کوئی بری بات نہیں تاہم جرم کرنے کے باوجود قانون کی پہنچ سے بچ جانا بری بات ہے۔

پاکستان میں بھی کئی واقعات پیش آئے جس میں ملزمان کا تعلق ملک کی ایلیٹ کلاس سے تھا لیکن وہ قانون کے ہاتھ سے محفوظ رہے۔ شاہ رخ جتوئی نے شاہ زیب خان کوگیارہ سال قبل فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا میڈیا پر کیس ہائی لائٹ ہو گیا تو جیل سے چھوٹنے کی کوشش ناکام رہی تاہم ملزم نے قید کا بڑا حصہ جیل اور نجی ہسپتال میں تمام سہولیات کے ساتھ گزارا۔ اگر غریب ہوتا تو بغیر جرم کے بھی جیل میں مہینوں، سالوں پڑا رہتا۔

یہ اور بڑے شہروں کے کچھ واقعات ہیں جس پر میڈیا میں شور مچ گیا تو ملزمان پر قانونی کارروائی مجبوری بن گئی تاہم پنجاب کے گاوں ہوں، سندھ کے وڈیرےہوں، کے پی کے یا بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اشرافیہ کی طرف سے ظلم و نا انصافیوں کی خبر تک سامنے نہیں آتی اگر خبر آبھی جائے تو خبر دینے والا صحافی بھی جان سے جاتا ہے۔

موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر لاہور کے کورکمانڈر ہاوس، فیصل آباد میں خفیہ ادارے کے دفتر، پشاور میں ریڈیو پاکستان سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں پی ٹی آئی سپورٹرز کی جانب سے توڑپھوڑ کی گئی اور آگ لگائی گئی۔ ایک سیاسی جماعت کے کارکنان اور سپورٹرز کی طرف سے یہ بہت بڑا قدم اٹھایا گیا تھا۔ جن کےخلاف آپریشن شروع کیا گیااور کئی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی۔ تاہم اس آپریشن میں دو کلاسز کا فرق صاف نظر آ رہا ہے جو لیڈران احتجاج میں براہ راست شامل رہے یا کارکنان کو ہدایات دیتے رہے وہ تو پریس کانفرنس کرتے ہیں پارٹی سے استعفی دیتے ہیں کلیئر ہو کر گھروں کو چلے جاتے ہیں اور پھر سے اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔ موجودہ واقعات کی ایسی ہی ایک مثال خدیجہ شاہ ہیں جو پنجاب کی ایلیٹ خاندان سے تعلق رکھتی ہے جس کے نانا سابق آرمی چیف، سابق وزیر خزانہ کی بیٹی ہے، جو پر تشدد مظاہروں میں براہ راست شریک رہی، بتایا جاتاہےکہ دو ممالک کی شہریت رکھنے والی خدیجہ شاہ کو بچانے والوں میں موجودہ حکمرنوں سمیت دیگر سیاسی شخصیات اور ان کے خاندان نے کوشش کی جبکہ ایک معروف صحافی و سابق اینکر کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ خدیجہ شاہ تو جیل یا ہسپتال میں قید کے کچھ دن آرام سے نکا لے گی رہائی حاصل کر لےگی تاہم احتجاج کے کارروائی کی زد میں آنے والے غریب نوجوانوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، جو جیل میں شدید گرمی کے موسم میں قید کاٹ رہے ہیں اور ان کے والدین عدالتوں کے باہر اپنے بچوں کو قیدی وین میں دیکھ کر رو رہے ہیں۔

المیہ یہ کہ ایک فاشسٹ لیڈر کی باتوں میں یقین کر کے اپنی زندگیاں داو پر لگانے والے نا سمجھ نوجوانوں کے پاس نا جیل کاٹنے کے لیے سہولیات ہیں، نا کیس لڑنے کے لئے اچھے وکیل کرنے کی استدعا ہے اور نا ہی یہ ٹکٹ ہولڈر ہیں کہ پریس کانفرنس کے ذریعے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرکے جان خلاصی کروا سکیں۔ تکلیف دہ امر یہ بھی کہ پی ٹی آئی جماعت کی طرف سے بھی ان ملزمان کو قانونی مدد دینے کے لئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ آخر میں یہ غریب لوگ ہی قید کاٹیں گے اور زندگی بھر انتظامیہ کی نظروں میں رہیں گے اور سرکاری سہولیات سے بھی محروم رہیں گے۔ جبکہ انتشار پھیلانے والے ان کے لیڈران کچھ عرصہ خاموشی سے گھر بیٹھ کر یا بیرون ممالک جا کر اپنی جان بچا لیں گے۔ کیوں کہ اشرافیہ کے اس ملک میں ہمیشہ سے مزے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے