کالم

یورپی یونین کے پرچم تلے ہم ایک ہیں

جولائی 1, 2023 4 min

یورپی یونین کے پرچم تلے ہم ایک ہیں

Reading Time: 4 minutes

حب الوطنی سے بھرپور اس مصرعے کو یورپی یونین کی طرف منسوب کرنے پر غصہ ہونے سے پہلے میری بات پر غور کیجیے گا۔

میں اس وقت یورپی یونین کی ایک کانفرنس شریک ہوں جو یونان کے شہر تھیسالونیکی میں ہو رہی ہے۔ کانفرس میں 14 یورپی ممالک سے دو دو بندوں کو منتخب کیا گیا ہے اور میں بیلجیئم کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ ہم تین دن یہاں رہ کر "Building Societies Without Racism” کو ڈسکس کریں گے۔

کانفرس کے شرکاء میں سب وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے ملکوں میں عوامی رابطے والی کسی اچھی پوزیشن پر کام کر رہے ہیں۔

اس کانفرس کا مقصد ایک ایسی یورپی سوسائٹی کا قیام ہے جہاں کوئی بھی شخص کسی امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بن سکے۔

پہلے دن کے سیشن میں سے ہم یہاں ایک قریبی شہر کے میئر سے ملے اور وہاں پر پورا سیشن ہی روما کمیونٹی کے گرد گھومتا رہا، کیونکہ اس علاقے میں روما کمیونٹی کے لوگ کافی تعداد میں رہتے ہیں۔ کہ کیسے ان کو کسی بھی امتیازی سلوک سے بچایا جا سکتا ہے۔ میئر نے بتایا کہ ہم نے حکومتی سطح پر بعض ایسے دفاتر بنائے ہیں جہاں صرف روما کمیونٹی کا ہی کام کیا جاتا ہے اور ان کو مختلف سرکاری دفاتر میں جانے کے بجائے اس سینٹرل دفتر تک آنا ہوتا ہے اور پھر دفتر والے ہی ان کا کام کرتے ہیں۔

روما کمیونٹی کو آپ یورپ کے خانہ بدوش بھی کہہ سکتے ہیں جو نہ ایک جگہ رہتے ہیں اور نہ ہی سرکاری کاغذات کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔ پرانے دور میں تو اس طرز کے ساتھ زندگی کافی حد تک مسائل کے بغیر گزاری جا سکتی تھی لیکن موجودہ دور میں جہاں قدم قدم پر ڈاکومنٹ اور پیسے کی ضرورت ہے تو ایسے میں یہ لوگ ایک خاص مشکل زندگی جیتے ہیں۔
ان کے بارے میں یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ "کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن مرن دا شوق وی سی”۔ کیونکہ ان کے مسائل میں ان کا اپنا حصہ بھی ہے کہ وہ سوسائٹی میں ضم ہونا پسند نہیں کرتے اور اسی وجہ سے تعلیم سے لے کر نوکری تک مسائل کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
ان کے اسی رویہ کی وجہ سے بعض جگہوں پر مقامی لوگ انہیں ناپسند کرتے ہیں اور معاشرے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ نوکری نہ ہونے کی وجہ سے ان کے جرائم میں مبتلا ہونے کی شرح بھی ذیادہ ہے۔

معاشرے میں امتیازی سلوک کو کاونٹر کرنے کے لیے اکثر و بیشتر یورپ بھر میں ڈسکشنز ہوتی رہتی ہیں اور جب بھی کسی فورم پر امتیازی سلوک کی بات ہوتی ہے تو ان لوگوں کا ذکر سرفہرست ہوتا ہے۔

میں نے اس مصرعہ کو اسی لیے یورپی یونین کے پرچم سے منسوب کیا کہ کم از کم یہاں پر حکومتی سطح پر کچھ سنجیدہ کوششیں ہوتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں تو امتیازی سلوک کو باعث فخر اور باعث ثواب گردانا جاتا ہے۔

سندھ میں دہائیوں سے مقیم غریب پشتون لوگ سندھ کی جھلسا دینے والی گرمی میں بیٹھ کر اپنے بچوں کے لیے رزق حلال کماتے ہیں اور پھر کسی دن اچانک کوئی بندہ خود کو سندھی کہتا ہوا آتا ہے اور منہ سے جاگ نکال کر کہتا ہے کہ خان یہاں سے چلے جاو اور کل نظر نہ آنا۔ جرم کیا ہے؟ یہ سوال ہماری سوسائٹی میں غیر متعلق ہے۔ اور اس کی یہ حرکت لاکھوں شئیر کرتے اور واہ سائیں واہ کے لاکھوں کمنٹ سمیٹ لیتے ہیں۔

پنجاب میں مذہب کے ہیضہ میں مبتلاء لوگوں نے پچھلے سال ایک مذہبی اقلیت پر اس لئے FIR کروائی تھی کہ وہ گھر کے اندر اپنا مذہبی فریضہ یعنی قربانی کر رہے تھے۔ مذہب کے نام پر اس جاہلانہ فعل کو بھی بہت سراہا گیا اور لوگوں کا بس نہیں چلا ورنہ تو FIR کروانے والے کو کسی سٹیج پر بلا کر جنت کا ٹکٹ پکڑا دیتے۔

بلوچستان میں دہائیوں سے مقیم پنجابیوں کو دھمکیاں دے کر ان سے باپ دادا کے خون پسینے کی کمائی سے بنا بنایا کاروبار چھینا گیا، مقامی لوگوں نے وہ کاروبار اونے پونے داموں خرید کر ان کو پنجاب روانہ کر دیا۔ نہ کوئی سیاسی رہنما سامنے آیا اور نہ ہی کسی عالم دین نے لوگوں کو یہ بناتا گوارا کیا کہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اور اس کی چیز اونے پونے خریدنا ناجائز اور حرام ہے۔
اگر بچوں کو حرام ہی کھلانا ہے تو اس کے علاوہ اور بہت آسان راستے ہیں۔

جب اتنا کچھ معاشرے میں ہو رہا ہو اور ہم آنکھیں بند کر کے جھوم جھوم کر یہ گا رہے ہوں کہ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک”۔ تو معاف کیجیے گا اس وقت یہ سوائے خود کو دھوکہ دینے کے اور کچھ نہیں۔

ہاں!

ان سب کے بیچ ریاست اور ریاستی ادارے کہاں ہیں؟

تو ہماری ریاست تو لوگوں کی پرائیویٹ ویڈیوز ریکارڈ کرنے میں مصروف ہے تاکہ ان کو بلیک میل کیا جا سکے۔

ہمارے اداروں کے افسران سیاسی انجینئرنگ کرنے یا پھر کسی سمگلر کے ساتھ مل کر ارب پتی بننے اور ملک کا پیسہ باہر لے جانے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔

لیڈران اور سیاستدان ایک دوسرے کو چور چور کہنے اور گالیاں دینے میں مصروف ہیں۔

ایسے میں "امتیازی سلوک” جیسے فضول موضوع پر کوئی کیوں قوم کی رہنمائی کرے گا کہ اس ملک میں ہم سب برابر ہے اور کسی دوسرے انسان کو آپ قوم، ذات، مذہب یا پھر کسی بھی وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنا سکتے۔

ہم آج بھی اُسی زمانہ جاہلیت میں رہ رہے ہیں جب اپنی قوم کو سب سے برتر سمجھا جاتا تھا بلکہ ہم جہالت میں اس سے مزید آگے بڑھ گئے ہیں کہ قوم کے ساتھ ساتھ ہم نے سیاسی پارٹی اور مذہب و مسلک کو بھی اس جہالت میں شامل کر لیا ہے کہ جو ہمارے ساتھ نہیں تو وہ کمتر ہے۔

ہمارے لیڈران میں سے بھی کوئی ایسا نہیں ہے جو اس طرح کے سماجی مسائل پر قوم کی رہنمائی کرتا ہو۔ ہم سچ میں 22 کروڑ "بلڈی سویلین” ہیں جو ایک دوسرے کو برابر کا شہری سمجھ کر قبول کرنے اور ایک قوم بننے کے بجائے ہمیشہ آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔

نوٹ: بلڈی سویلین کی سوچ رکھنا بھی Racism ہی ہے۔ اور برتری کی اسی سوچ کی وجہ سے عوام کو بہت سارے حقوق سے محروم رکھا گیا.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے