کالم

تالا کیسے کُھلے گا؟

جولائی 9, 2023 2 min

تالا کیسے کُھلے گا؟

Reading Time: 2 minutes

قیمتی ڈیڑھ گھنٹہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کو سننے میں گزارا۔ ان کی سخت کوششوں کے باوجود یہ وقت رائیگاں نہیں گیا۔ کیونکہ ہم عالم سے سیکھتے ہیں جب وہ بولتا ہے لیکن جب جاہل بولتا ہے تو زیادہ سیکھتے ہیں۔

غیر متوقع طور پر، حاشر ارشاد انٹرویو کے پہلے نصف کے دوران ایک ایماندار انٹرویو لینے والے ثابت ہوئے۔ ان کی پوچھ گچھ اور تحقیقاتی سوالات کی بوچھاڑ نے ڈاکٹر طاہرہ کی کہانی میں بے شمار جھول بے نقاب کیے۔ وہ سخت سوالات کے لیے بالکل تیار نہ تھیں۔

انہوں نے سوچا ہو گا کہ حاشر ارشاد دوست ہونے کے ناطے، اور پچھلے کچھ دنوں سے مسلسل ان کی کہانی کی تائید بھی کر رہے ہیں، تو انٹرویو لینے والے کے بجائے ایک سہولت کار کا کردار ہی ادا کریں گے۔ لیکن حاشر کا شکریہ کہ اُنہوں نے اپنی ساکھ کا خیال رکھا۔ کم از کم انٹرویو کے پہلے نصف کے دوران۔

تاہم، دوسرے نصف میں، بگڑتے تعلق کو سنبھالنے کے لیے،حاشر نے پچھلی نشست سنبھالی اور ایک غیر متعلقہ تقریر کرنے کے لیے مائیک طاہرہ کو دے دیا، اس دوران بھی وہ اپنی لاعلمی کو بے نقاب اور تعصبات کو آشکارا کرتی رہیں۔

مجموعی طور پر تاثر یہ بنا کہ وہ فیمنسٹ کم اور نسل پرست ایلیٹسٹ زیادہ ہیں جن کے ایکٹیو ازم کا پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو فایدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ ہے۔

میں نے یہاں ان کی ‘دانش’ کے کچھ موتیوں کا حوالہ دینے کا سوچا لیکن لانگ لسٹ سے شارٹ لسٹ نہیں کر سکا۔ حاشر ارشاد کی فیس بُک پر موجود ویڈیو میں خود سن لیں۔

مختصر تجزیہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی معاشرے کے زمینی حقائق، سماجی حرکیات، سیاسی جغرافیہ، نسلی حساسیت اور یہاں تک کہ طبی اخلاقیات اور میڈیکو لیگل سے بھی واقف نہیں۔ اور ان کے تعصبات، خدا کی پناہ۔

اگر اتنی تعلیم، تجربہ اور تقریباً آدھی دنیا کی سیر بھی آپ کو مبالغہ آرائی کی حد نہیں سکھاتی، اور وہ بھی حساس ترین موضوعات پر بات کرتے ہوئے، تو آپ کو بیان کرنے کے لیے جاہل ہی درست لفظ ہے۔

پاکستانی معاشرے میں مرد یقیناً برے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے طاہرہ نے انہیں دکھایا ہے۔ اور باقی دنیا میں مرد اچھے ہو سکتے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنا وہ بتاتی ہیں۔

کسی مسئلے کو اس کی حقیقی شدت سے کئی گنا زیادہ سنگین بیان کرنا درحقیقت اس مسئلے کو بڑھاتا ہے، جس کے نتیجے میں ان افراد اور گروہوں کو فائدہ ہوتا ہے جو اس مسئلے کے حل کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
کشمیر ایسی ایک مثال ہے۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد سے وابستہ بہت سے لوگ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ وہ بھی مسائل کے تنور کو ہمیشہ دہکتا رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی روٹی بلا توقف لگتی رہے جو عام طور پر مغرب سے آتی ہے۔

پاکستان میں حقوق نسواں کی حقیقی تحریک کو پٹری پر رکھنے کے لیے پورس کے اس ہاتھی کو بے نقاب کرنا ناگزیر تھا۔ تاہم بحیثیت انسان اور ایک عورت، ان کے احترام میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔

آخر میں ایک سوال، اگر آپ حکام کو رپورٹ نہیں کریں گے تو اس ظالمانہ "قبائلی میراث” کو ختم کیسے کریں گے؟ کوئی پولیس ایکشن، کوئی قانون سازی، کوئی عدالتی فیصلے۔ یہی روڈ میپ ہے اصلاح احوال کا یا فیس بک پر چسکے بازانہ "کھل جا سم سم” کہتے رہنے سے یہ تالا کھل جائے گا؟

نوٹ: یہ تحریر عاطف افضال کے فیس بُک سے لی گئی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے