انڈیا کا ردعمل لاکھوں افراد کے لیے زندگی مشکل بنا رہا ہے: کینیڈا
Reading Time: 2 minutesکینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ ’کینیڈین سفارت کاروں کے خلاف انڈین حکومت کا کریک ڈاؤن دونوں ممالک کے لاکھوں افراد کے لیے معمول کی زندگی کو مشکل بنا رہا ہے۔‘
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جسٹن ٹروڈو کا یہ بیان کینیڈا کی جانب سے اپنے 41 سفارت کاروں کو انڈیا سے واپس بلانے کے بعد سامنے آیا ہے۔
کینیڈا نے انڈیا کی جانب سے یک طرفہ طور پر ان سفارت کاروں کی حیثیت کو منسوخ کرنے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد کینیڈین حکومت نے اپنے ان 41 سفارت کاروں کو واپس بلا لیا۔
انڈین حکومت کی جانب سے سفارتی استثنیٰ ختم کیے جانے کے بعد کینیڈین وزیر خارجہ میلانی جولی نے سفارت کاروں کو واپس اپنے ملک بلانے کی تصدیق کی تھی۔
کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی نے جمعرات کو بتایا کہ ’انڈیا میں موجود 62 میں سے 41 سفارت کاروں اور ان کے اہلِ خانہ کو واپس بلا لیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کینیڈا کے 21 سفارت کار انڈیا میں ہی قیام کریں گے۔ سفارتی استثنیٰ ختم کیے جانے اور ملک چھوڑنے کی ڈیڈلائن کے بعد ہمارے سفارت کاروں کو خطرات لاحق تھے۔‘
یاد رہے کہ انڈیا اس بات پر ناراض ہے کہ جسٹس ٹروڈو نے گذشتہ ماہ یہ الزام لگایا تھا کہ ’کینیڈا میں رواں برس جون میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نِجر کے قتل میں انڈین ایجنٹ ملوث ہو سکتے ہیں۔‘
انڈیا نے ہردیپ سنگھ نِجر کے قتل ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کینیڈا علیحدگی پسندوں اور ’دہشت گردوں‘ کو پناہ دے رہا ہے۔‘
سفارتی تنازع کی ابتدا اُس وقت ہوئی تھی جب کینیڈین وزیراعظم نے ایوانِ زیریں میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نِجر کے قتل میں انڈین ایجنٹوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
جسٹن ٹروڈو کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں تشویش ہے کہ ’انڈیا کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نِجر کے قتل میں انڈین حکومت کا ممکنہ کردار ہے۔‘
اس کے بعد کینیڈا نے ایک انڈین سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کے جواب میں انڈیا نے بھی کینیڈا کے ایک سفارت کار کو ملک سے نکل جانے کو کہا تھا۔