جنرل ر فیض کے خلاف سپریم کورٹ میں تین درخواستیں، سماعت میں کیا ہوا؟
Reading Time: 4 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ میں زمین قبضے کے الزام میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ر فیض حمید کے خلاف درخواست کی سماعت کی گئی ہے۔
عدالت نے درخواست گزار کنور معز احمد خان کے وکیل کو وکالت نامہ جمع کرانے کے لیے وقت دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست گزار سے کہا کہ آپ نے درخواست میں سنگین الزامات عائد کیے ہیں، کیا کیس میں خود پیش ہوں گے یا وکیل کے ذریعے؟
درخواست گزار نے بتایا کہ اُن کے وکیل شہریار طارق نے وکالت نامہ جمع نہیں کرایا۔
وکیل شہریار طارق نے کہا کہ کل ہی کال آئی تھی، کیس میں التوا دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کو ملتوی بھی نہیں کر سکتے، وکالت نامہ جمع کرائیں، پھر کیس سنیں گے۔
جنرل(ر) فیض حمید کے خلاف درخواست پر وقفے کے بعد سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ بارہ مئی 2017 کو معیز خان اور ان کے اہلخانہ کو اغوا کیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس حوالے سے یہ عدالت کیا کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟
وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست تو کوئی کاررروائی نہیں کی تھی، وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ زاہدہ نامی کسی خاتون کی درخواست بھی زیر التوا ہے۔
وکیل نے کہا کہ زاہدہ کا انتقال ہوچکا ہے، درخواست کی کاپی دیں تو جائزہ لے لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جائزہ لے لیں تاریخ نہیں دے سکتے، چائے کے وقفے کے بعد سماعت کریں گے۔
درخواست گزار کے وکیل شہریار طارق
نے بتایا کہ حفیظ الرحمان چوہدری بھی اسی کیس میں وکیل ہیں۔ درخواست ہے کہ وزارت دفاع کو حکم دیا جائے کہ وہ کیس میں فریقین کے خلاف کارروائی کی مجاز اتھارٹی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے دو درخواستیں ہیں، زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست بھی ہمارے سامنے ہے، چوہدری صاحب تیاری نہیں ہے تو گھر جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلا کو مہلت دینے کی روایت ختم کر رہے ہیں، مقدمے کی تیاری کر کے آئیں۔
وقفے کے بعد سماعت
چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ
برطانیہ کی شہری زاہدہ اسلم نے 2017 میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 تین کا کیس دائر کیا، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں نومبر 2018 میں فریقین کو بلا کر کیس چلایا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا چیف جسٹس چیمبر میں اکیلے سنگل جج کے طور پر فریقین کو طلب کر کے کیس چلا سکتا ہے؟ کیس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود ہی ایف آئی اے، پولیس اور سی ٹی ڈی وغیرہ کو نوٹس کیا۔
چیف جسٹس کے مطابق اسی نوعیت کی درخواست زاہدہ اسلم نے چیف جسٹس گلزار کے سامنے بھی رکھی، سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں آرٹیکل 184 تین کی درخواستیں دائر کی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ہے، ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیس کے حقائق میں نہ جائیں، میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ہیومن رائٹس سیل غیر قانونی ہے، ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں، کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ دو ہزار پانچ سے انسانی حقوق سیل کا سلسلہ چل رہا ہے، انسانی حقوق سیل سے اقدامات غیر آئینی ہیں۔
دوران سماعت ڈی جی ایچ آر سیل سپریم کورٹ پیش ہوئے اور بتایا کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بارہ دسمبر سن دو ہزار انیس کو فل کورٹ اجلاس بلایا، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے دی انسانی حقوق سیل کے حکم کو جوڈیشل آرڈر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ڈی جی ایچ آر سیل نے بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے دی ایچ آر سیل کے لیے رولز بننے چاہیں، انسانی حقوق سیل سے متعلق رولز بنانے کے لیے مزید کوئی فل کورٹ میٹنگ نہیں بلائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دو ہزار انیس کے بعد فل کورٹ میٹنگ تو میں نے اپنی سربراہی میں بلائی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق آرٹیکل 184 کی شق تین کے علاوہ سپریم کورٹ انسانی حقوق سیل کی آڑ میں متوازی عدالتی نظام قائم نہیں کر سکتی۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کو چیمبر میں ایچ آر کی درخواست پر آرڈر دینے کا اختیار نہیں، ویسے بھی اب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔
سپریم کورٹ نے فیض حمید کے خلاف کارروائی کی درخواستیں نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف شکایت کے تین فورمز ہیں۔
عدالتی حکمنامے کے مطابق درخواست گزار چاہے تو وزارت دفاع، سول یا کرمنل کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کے خلاف کارروائی کے لیے اس کا اپنا ادارہ بھی موجود ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر الزامات ثابت ہو جائیں تو ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ نوکری پر بحال کر کے اس کا کورٹ مارشل بھی کیا سکتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ریٹائرڈ فوجی افسر کیخلاف کارروائی کے لیے وزارت دفاع، عام فوجداری یا دیوانی عدالت بھی موجود ہے۔