بگ باس سب سُن رہا ہوتا ہے: جسٹس بابر ستار کی آئی ایس آئی کو ہدایت
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو ہدایت کی ہے کہ وکیل لطیف کھوسہ اور بشری بی بی کی آڈیو لیک کا فرانزک کرایا جائے۔
جمعرات کو عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ تحقیقات کی جائیں کہ سب سے پہلے آڈیو کہاں سے جاری ہوئی۔
عدالت نے درخواست کی ایک کاپی ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ڈی جی آئی ایس آئی بھی رپورٹ دیں کہ آڈیو کس نے ریلیز کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کو نوٹس جاری کر تے ہوئے درخواست پرجواب طلب کیا ہے۔
عدالت نے درخواست پر رجسٹرار دفتر کے عائد اعتراضات بھی ختم کر دیے۔
عدالت نے پوچھا کہ پیمرا بتائے لوگوں کی نجی گفتگو کیسے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہی ہے؟
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے سماعت کے دوران پوچھا کہ درخواست پر رجسٹرار آفس کا کیا اعتراض ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اعتراض ہے کہ الگ درخواست دائر کریں، متفرق درخواست کیسے کر سکتے ہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ آڈیو لیکس کیس میں متفرق درخواست دائر ہوسکتی ہے،
وکیل اور موکل کے درمیان گفتگو پر استحقاق ہوتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ بگ باس سب سن رہا ہوتا ہے آپ کو تو پتا ہونا چاہیے۔
جسٹس بابر ستار کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونجے تو انہوں نے پوچھا آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟
وکیل نے بتایا کہ سب کو پتا ہے کون ریکارڈ کرتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ مفروضے پر تو نہیں چل سکتے۔
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ یہ میرا نہیں پورے ملک کے وکلاء کا مسئلہ ہے، وکیل موکل سے آزادی سے بات نہ کر سکے تو نظام انصاف کیسے چلے گا۔
جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ کیا آڈیو سوشل میڈیا پر آئی ہے؟
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ آڈیو تمام ٹی وی چینلز نے نشر کی۔
جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ سب سے پہلے ٹوئٹر پر آئی یا کہیں اور؟ یہ معلوم ہوجائے ریلیز کہاں ہوئی تو پتا چل سکتا ہے کہ ریکارڈ کس نے کی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ پیمرا ویسے تو کسی کا نام لینے پر بھی سکرین بند کر دیتا ہے، مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا کہ آپ کا فون محفوظ نہیں۔
عدالت نے مزید سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کر دی۔