ملٹری کورٹس کیس، جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیوں؟
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں عدالتی بینچز کی تشکیل کے معاملے پر جسٹس اعجازالاحسن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کمیٹی کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے عدالتی بینچز کی تشکیل پر خط میں تحفظات ظاہر کیے اور کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت وہ مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے والی کمیٹی کا حصہ ہیں۔
خط میں جسٹس اعجاز الاحسن نے لکھا کہ سات دسمبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کمیٹی کا اجلاس چیف جسٹس کے چیمبر میں ہوا۔ ’میں نے بطور ممبر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ متعدد فون کالز کے بعد مجھے کمیٹی کا ایجنڈا ڈھائی بجے فراہم کیا گیا۔’
جسٹس اعجازالاحسن نے لکھا ہے کہ کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے کے تین نکات تھے۔ ایک یہ کہ فہرست میں شامل مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنا۔ دوسرا یہ کہ فہرست میں شامل ائینی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق کمیٹی کا حکم نامہ۔ اور تیسرا مقدمات جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی پالیسی کا تعین کرنا۔
جسٹس اعجازالاحسن کے مطابق ایجنڈا آئٹم 1 کے تحت کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل پر پانچ رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے، اس لیے فیصلے کے خلاف اپیلیں سات رکنی بینچ سنے گا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے خط میں لکھا ہے کہ انہوں نے اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ پِک اینڈ چوز کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے۔
جسٹس اعجازالاحسن کے خط کے مطابق ’چیف جسٹس نے میری بات سے اتفاق کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ججز سے اس حوالے سے بات کریں گے اور اگر کوئی جج بینچ میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو پھر اگلے سینیئر جج کو بینچ میں شمولیت کے لیے کہا جائے گا۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے لکھا ہے کہ ’سیریل نمبر تین سے چھ کے لیے بھی یہی اصول طے کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی سینیارٹی کی بنیاد پر تین رکنی بینچ تشکیل دیا جائے گا، اگر کوئی جج بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتا تو اگلے سینیئر جج کو بینچ میں شامل کر لیا جائے گا۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’جمعے کے روز میں نے سارا دن دونوں بینچز کے حوالے سے کسی بھی قسم کی معلومات کا انتظار کیا۔ رجسٹرار آفس سے تین بار فون پر رابطہ کیا گیا تو جواب میں رجسٹرار نے کہا کہ نوٹ کے ساتھ فائل چیف جسٹس کو بھجوا دی گئی ہے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن کا خط میں کہنا ہے کہ جمعے کو آخری کال شام ساڑھے چھ بجے کی گئی جس کے جواب میں بتایا گیا کہ رجسٹرار اپنے دفتر سے جا چکی ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا ہے کہ اُن کو چوتھے اور پانچویں اجلاس کے میٹنگ منٹس بھی جمعے اور ہفتے کے روز فراہم نہیں کیے گئے۔ ’دونوں اجلاسوں کے میٹنگ منٹس پر میں نے دستخط ہی نہیں کیے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’میری مرضی کے بغیر یہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیے گئے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے لکھا کہ ’کمیٹی کے ممبر ہونے کے ناطے یہ میرا فرض ہے کہ وہ حقائق منظر عام پر لاؤں کمیٹی اجلاس میں جن پر بحث کی گئی، دونوں سپیشل بینچز کی منظوری کمیٹی سے نہیں لی گئی۔ دونوں سپیشل بینچز غور کے لیے کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہیں کیے گئے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’اگر یہ دونوں بینچز کمیٹی کے سامنے پیش کیے جاتے تو میں ان سے اتفاق کرتا، اختلاف کرتا یا رائے دینے سے انکار کرتا، کمیٹی میں اتفاق کے باوجود سات رکنی بینچ کی بجائے چھ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے لکھا کہ مجھے آج بھی علم نہیں کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ججز نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے ان کو شامل نہیں کیا گیا۔‘