فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمات، آئینی بینچ نے جھکاؤ واضح کر دیا؟
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی فوج کے زیرِحراست 9مئی کے ملزمان کے مقدمات پر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے بظاہر اپنے جھکاؤ کی طرف اشارہ دے دیا ہے۔
پیر کو آئینی بینچ نے 26ویں ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر کیس کی سماعت موخر کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔
سات رُکنی آئینی بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہر سماعت پر ایسی کوئی درخواست آ جاتی ہے۔ اگر 26ویں ترمیم کالعدم ہو بھی جائے تو عدالتی فیصلوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے واضح کہا کہ آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت بھی نئی ترمیم کے تحت بننے والا بینچ ہی کرے گا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سرکاری اپیلوں کی سماعت کی۔
آئینی بنچ کے سامنے درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل نے استدعا کی کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک فوجی عدالتوں کا مقدمہ نہ سنا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے کہا کہُاُن کا کوئی پیارا فوج کے زیرحراست نہیں، اس لیے مقدمے میں تاخیر چاہتے ہیں۔ اگر درخواست گزار آئینی بینچ کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتے تو یہاں سے چلے جائیں، کیونکہ جو بھی بینچ تشکیل دیے جا رہے ہیں وہ نئی ترمیم کے تحت ہی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کتنے ہی لوگ جیل میں ہیں، اور درخواست گزاروں کی وجہ سے فیصلے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین پر بھی لاگو ہے، یا تو پھر یہ شقیں بھی کالعدم کر دی جائیں، پھر کہیں کہ سویلین کا فوجی ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وہ تو الگ سویلین ہیں جو آرڈیننس فیکٹری جیسے محکموں میں کام کرتے ہیں۔
خواجہ حارث نے بتایا کہ آرمی ایکٹ سویلین کی اس کیٹیگری کی بات ہی کرتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کا کیس آرمی ایکٹ کی اس شق میں نہیں آتا۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ یہ بتائیں انسداد دہشتگردی عدالتوں نے ملزمان کی ملٹری کو حوالگی کیسے دی؟ کیا اے ٹی سی کورٹس کا وجوہات پر مبنی کوئی آرڈر موجود ہے؟
دوران سماعت وکیل درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ آئینی ترمیم کالعدم ہوئی تواس کے تحت ہونے والے فیصلے بھی ختم ہوجائیں گے۔
جس پرجسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فیصلوں کو ہمیشہ تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو لوگ جیلوں میں پڑے ہیں ان کا سوچیں اور تاخیر نہ ہونے دیں۔
مقدمے کی مزید سماعت منگل کو ہوگی۔