پاکستان

ججوں کی پنشن بند کی جائے

اکتوبر 16, 2017 2 min

ججوں کی پنشن بند کی جائے

Reading Time: 2 minutes

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ آج کل یہ بحث ہورہی ہے کہ معیشت پر کون بول سکتا ہے اور کون نہیں، ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ معیشت اور سیکورٹی جڑے ہوئے ہیں، اگر سیکورٹی پر اخراجات دس فیصد کم کردیے جائیں، اسی طرح حکومت بھی اپنے دس فیصد غیر ترقیاتی اخراجات کم کردے اور عدلیہ بھی دس فیصد خرچے کم کرے تو تین سال میں معیشت بہتر ہوجائے گی۔ سپریم کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھاکہ ہم جیسے زیادہ کمانے والوں پر اگر زیادہ ٹیکس لگتاہے تو ہمیں قبول ہے اوریہ جائز بھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو جج ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری شروع کر دیتا ہے اس کی پنشن ختم ہونی چاہیے، نیب اور جوڈیشل کمیشن ریٹائرڈ ججوں کے پنشن ہاوسز بن چکے ہیں، اگر نیب میں کسی چھوٹے صوبے کے اسکول کالج کی پرنسپل عورت کو لگائیں تو نیب ٹھیک ہوجائے گا، اسکول کی پرنسپل تگڑی عورت ہوتی ہے وہ کسی کی نہیں سنتی، اس کے پاس روزانہ بچوں کے داخلے کیلئے بڑی بڑی سفارشیں آتی ہیں۔اس کو تجربہ ہوتاہے۔ نیب سمیت ہرجگہ گھسے پٹے جج لگا دیتے ہیں، یہ جوڈیشل پالیسی کے بھی خلاف ہے، ان کی جوڈیشل پالیسی دوسروں کیلئے ہوتی ہے اپنے لیے نہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ وکیلوں کی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ججوں کو پلاٹ کیلئے ممبر شپ دینا بالکل غلط ہے، جب میں بار کی صدر تھی اس وقت کسی جج کو پلاٹ کیلئے رکنیت نہیں دی، موجودہ صدر سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ جس جج کا پلاٹ ہے اس کو وکیلوں کی سوسائٹی کا مقدمہ نہیں سننا چاہیے۔ پلاٹ کیلئے ممبر شپ دینے اور لینے والوں سے پوچھا جائے ۔ کبھی کسی جج سے ایسا رابطہ نہیں رکھا نہ کھانے کھلائے، صرف بار کی جانب سے ریٹائر ہونے والے ججوں کو ڈنر دیا۔ یہ وکیل ججوںسے جھگڑے ان کو بلیک میل کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ جہاں تک وکیلوں کی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں پلاٹ کا معاملہ ہے تو صحافی ہمارے خلاف ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ جیسا مفت لے رہے ہوں، ہم نے قیمت ادا کی ہے، پلاٹ خریدیں گے اور اس کیلئے رقم ادا کر رہے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے ترک اساتذہ کو عدالتی حکم کے باوجود اغوا کرکے بے دخل کرنے کی مذمت کی اور کہاکہ دنیا بھر میں یہ مسلمہ قانون ہے کہ جس شہری کی زندگی کو اپنے ملک میں واپسی سے خطرہ ہو، اس کو زبردستی بے دخل نہیں کیا جاتا مگر یہاں عدالت سے جھوٹ بولا گیا۔ وزیرداخلہ سے امریکا میں اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ معلومات کریں گے ترک اساتذہ کو کس نے اغوا کیا جبکہ وزیرخارجہ نے مختلف بیان دیا۔ ترکی میں اس وقت پچاس ہزار لوگ جیلوں میں ڈالے گئے ہیں اور پاکستان سے زبردستی بھجوائے گئے ترک اسکول کے پرنسپل اور اس کی اہلیہ کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ہرشہری کو اس کے خلاف بولنا چاہیے تاکہ یہ معاملہ سامنے آئے اور حکومت پر دباﺅ پڑے کہ اردوآن کی ہر بات کو نہ مانا جائے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے