عدالت میں زینب قتل کی گونج
Reading Time: 2 minutesعدالت عظمي ميں بھي معصوم زينب کے اندوہناک قتل ذکر ہوا ہے _ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ زینب قوم کی بیٹی تھی، واقعہ پر سر شرم سے جھک گیا ہے_ چیف جسٹس نے وکلاء سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ تشدد روکنا وکلاء کی ذمہ داری ہے _
چیف جسٹس ثاقب ںثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے الراضی میڈیکل کالج کے میڈیکل کونسل سے الحاق کیس کی سماعت کی_ چیف جسٹس نے وکلاء کی ہڑتال کی وجہ پوچھی تو اعتزازاحسن نے بتایاکہ سانحہ قصور کیخلاف ہڑتال کی جارہی ہے جس پر چیف جسٹس ثاقب نثارنے کہاکہ زینب قوم کی بیٹی تھی، واقعہ پرپوری قوم کا سرشرم سے جھک گیا، ان سے زیادہ آن کی اہلیہ پریشان ہے، دکھ اور سوگ اپنی جگہ لیکن ہڑتال کی گنجائش نہیں بنتی_ چیف جسٹس نے ججز بحالی کیلئے وکلاء تحریک کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ اعتزازاحسن نہ ہوتے تووکلاء تحریک نہ چلتی وہی، کردار اب عدلیہ میں اصلاحات اور صحت کیلئے ادا کرنا ہوگا ،اعتزازاحسن نے عدلیہ تحریک کے منفی پہلو کی جانب اشارہ کرتےہوئے کہاکہ پرتشدد وکلاء اورمغرور جج عدلیہ تحریک کا نتیجہ ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججزکوکسی صورت مغرورنہیں ہونا چاہیے ، دعا کریں غرور ہمارے لیے موت کا باعث بنے، تشدد روکنا وکلاء کی ذمہ داری ہے، ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں تشدد نہ کیا کریں ، سپریم کورٹ نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو داخلہ ٹیسٹ کے نتائج جاری کرنے کی اجازت دیتےہوئے سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی_
دوسري طرف پولیس تشدد سے بچے ارسلان مسیح کی ہلاکت پر ازخودنوٹس کی سماعت ميں چيف جسٹس نے استسفار کيا کہ کیا پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟وکيل پنجاب حکومت نے عدالت کوبتايا کہ واقعہ تھانہ کے اندر پیش نہیں آیا ليکن واقعہ کے چھ ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں،چيف جسٹس نے کہا کہ عدالت نوٹس نہ لیتی تو يہ گرفتاریاں بھی نہ ہوتیں،عدالت عدالت نے دس دن میں پوليس سے چالان کی نقل اور پیشرفت رپورٹ طلب کر لی