پاکستان

بیٹے کے لیے پراڈو نہیں چاہیے

فروری 4, 2018 4 min

بیٹے کے لیے پراڈو نہیں چاہیے

Reading Time: 4 minutes

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ججوں اور انتظامی افسران کے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ انصاف اللہ کی صفت ہے، ہم خوش قسمت لوگ ہیں کہ ہمیں یہ صفت تحفے کے طور پر ملی، ہم عدلیہ کا حصہ ہیں اور عدلیہ ریاست کا بہت اہم ستون ہوتا ہے، اگر اس ستون نے اپنی کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست غیر متوازن ہو جائے گی ۔

سپریم کورٹ میں ٹریبونلز کے ججوں اور دیگر عدالتی انتظامی افسران نے بھی اجلاس میں شرکت کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کو درپیش چیلنجز انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے چاہیں، ایسے ججوں کو بھی دیکھا جن کے روم میں پنکھا بھی نہیں چلتا تھا اس کے باوجود وہ جذبے سے کام کرتے تھے، جب آپ اس کو اپنی جاب سمجھ کر کریں گے تو جاب تو ہو گی لیکن جذبہ نہیں ہو گا، پھر اس کو خدا کی صفت نہیں کیا کہا سکتا، انہوں نے کہا کہ میں تمام ٹریبیونلز کے ججز کی بھی اسی طرح قدر کرتا ہوں جیسے مین سٹریم ججوں کی عزت ہے، ٹریبیونلز کے ججز خود کو نظر انداز کیے گئے لوگ نہ تصور کریں، ہمیں انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری ملی ہے،انصاف اللہ کی صفت ہے، ہم کتنے خوش نصیب ہیں یہ صفت ہمارے حصے میں آئی ہے، ٹارگٹ دے کر انصاف لینا مزدوری ہے، میں کسی سے مزدوری نہیں کروانا چاہتا،ہم نے دل و جان سے اس ملک کی خدمت کرنی ہے،تمام فیصلے حقائق پر مبنی ہونے چاہیے،جوڈیشیری کسی بھی ریاست کااہم ستون ہوتی ہے
لوگوں کوبرملاشکایت ہے،شکایت کی ذمہ داری خود لیتاہوں، بڑے بھائی کو اس شرمندگی اور پریشانی سے آپ نے بچاناہے،جوڈیشری کوبہت سے چیلنجز درپیش ہیں لیکن یہ چیلنجز انصاف کی راہ میں یہ رکاوٹ نہیں بنیں گے، بہت بدنصیب لوگ ہوتے ہیں جو بے وطن ہوتے ہیں،اعتزاز احسن نے کہایہ دھرتی ماں جیسی یے، کیا اس ماں حق ادا کررہے ہیں،فخر ہوتاہے کہ میں پاکستان کاشہری ہوں،پاکستان چین کی دوستی ایک محبت ہے، چائینیز چیف جسٹس نے ترقی کاراز بتاتے ہوئے کہاہم ایک قوم ہیں،چائینہ میں لوگ دن اور رات کوملک کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں
ہمیں آنے والی نسلوں کو ایک اچھا مستقبل دیناہے،ایک سال کے لیے اس ملک کوایک تحفہ دے دیں،تعلیم صحت مفاد عامہ کے کام ہمارا پیشن ہے
عدلیہ میں دیانتداری کو مدنظر رکھ کر کام کرناہے،لاکھوں میں تنخواہ لینے کے بعد ہمارافرض ہے کہ روزانہ 40ہزار کاکام کرکے اٹھیں،قوانین پارلیمنٹ نے بنانے ہیں،ہم مقننہ کے بنائے گئے قوانین کے تابع ہیں،کیاموجودہ حالات کے مطابق قوانین بنائے گئے ہیں،کہاجاتاہے اتنی عدالتیں بنادیں لیکن کام نہیں ہورہا
ججز کوقوانین پرعبور حاصل ہوناچاہیے،نچلی عدالت کے جج اور مجھ میں کوئی فرق نہیں، ججز قانون کے تابع ہوتے ہیں، کہہ کہہ کرتھک گئے ہیں خدارا ایک ماہ میں فیصلہ کریں،اس ملک میں انصاف کے لیے جوآپ کرسکتے ہیں کریں، جب جج نہیں ہوں گے توآپ کی کیاحیثیت ہوگی، نظام کوآگے بڑھانے میں اس مہم کاحصہ بنیں، عہد کریں!ہم نے انصاف کرنا ہے،ازخودنوٹس صرف بنیادی حقوق کے نفاذ پر لیے،کبھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا،ملک میں اچھے لیڈر اور اچھے منصف آئیں تو پرواز کوئی نہیں روک سکتا، مفاد عامہ کی فراہمی ہماری ذمہ داری ہے، کبھی کبھی ایسے کیسزآجاتے ہیں ازخود نوٹس لینے پڑتے ہیں، کوئی بتادے بنیادی حقوق کے حوالے سے کوئی خلاف ورزی کی ہے، تعلیم صحت صاف پانی پر نوٹس لے کر کیا غلط کیا؟ کبھی بھی فیصلہ کرتے ہوئے خوف یامصلحت کاشکار نہیں ہونا، اس ملک کوایک بہتر ملک بنانے کے لیے کام کرنا ہے، بچے کو پراڈو دی تو وہ کام نہیں آ نی، سال بعد میں جج نہیں رہوں گا تو کیا حیثیت ہو گی، کل کو بچہ پراڈو عوام میں چلا نہیں سکے گا، پہلے وکلا دبے پاؤں شیشن جج کے روم میں جاتے تھے، ازخودنوٹس صرف بنیادی حقوق کے نفاذ پر لیے، کبھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، ججز اپنا کام کرنے سے گریز نہ کریں، ہائی کورٹس بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائیں، پاکستان کو بہتر ملک بنانے کیلئے جدوجہد کرنی ہے، کاش ملک میں حضرت عمر اور حضرت علی کے ثانی آ جائیں، ملک میں اچھے لیڈر اور اچھے منصف آئیں تو پرواز کوئی نہیں روک سکتا، سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا جب سے عہدہ سنبھالا بیوی سے لڑنا چھوڑ دیا، وجہ پوچھنے پر جج نے بتایا کہ بے سکونی میں انصاف نہیں ہو سکتا، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے بھی گلہ ہے، اچھا کام کرنے والوں کو جوڈیشل ٹریننگ کیلئے نہیں بھجوایا جاتا
ہمیشہ کم پیشہ ور ججز کو ہی ٹریننگ پر بھجوایا جاتا ہے، ٹریننگ کیلئے بہترین ججز کا انتخاب کیا جائے
جمہوریت قرآن پاک کے بعد آئین کا اہم ترین حصہ ہے، ملک میں جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونے دینے، جمہوریت کو کچھ ہوا تو عہدے پر نہیں رہوں گا، نظریہ ضرورت کو دفن کر چکے ہیں، لوگ ہمیں کچھ مقدمات کھولنے کا طعنہ دیتے ہیں، مانتا ہوں ماضی میں عدلیہ سے غلطیاں ہوئیں، تنقید کرنے والے سندھ ہائی کورٹ بار کیس کا فیصلہ پڑھیں، کہا جاتا ہے عدلیہ جمہوریت کیخلاف کسی مہم کا حصہ ہے، عدلیہ کسی مہم کا حصہ نہیں، کہا جاتا ہے کوئی خاص پلاننگ ہو رہی ہے، عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے، ہم کسی پلاننگ کا حصہ نہیں ہیں، کسی کا ساتھ دے رہے ہیں نہ نا انصافی کرینگے، ناانصافی کرکے نبی کریم کی شفاعت سے محروم نہیں ہونا چاہتا، ججز پر کسی قسم کا کوئی دبائو نہیں، اونچی آواز میں بات ہال سے باہر والوں کو بھی سنانے کیلئے کی، ہمیں اپنے گھر کا بھی محاسبہ کرنا ہوگا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے