پاکستان

آئی ایس آئی کس قانون کے تحت

اگست 3, 2017 2 min

آئی ایس آئی کس قانون کے تحت

Reading Time: 2 minutes

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر نے پاناما پر سپریم کورٹ فیصلے کو جانبدارانہ، متعصبانہ اور آمرانہ قرار دیدیا، کہتی ہیں نیب ریفرنس اور عدالتی کارروائی کیلیے سپریم کورٹ جج کی تقرری فری ٹرائل کے اصولوں کے منافی ہے، ریلیف کیلیے نواز شریف کو سڑکوں پر آنے کا مشورہ بھی دیدیا۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں میٹ دی پریس میں بات کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے ملک میں جاری سیاسی کشمکش، عدالتی فیصلوں کو خوب رگیدا ۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری ناداروں، کمزوروں بے کسوں اور رسائی نہ رکھنے والوں کو انصاف کی فراہمی کیلیے استعمال کیا جانا تھا لیکن یہاں اس شق کو وزیر اعظم کو گھر بھیجنے اور اپنی طاقت کو بڑھانے کیلیے استعمال کیا گیا۔ کہا کہ ایک ٹرائل عدالت میں تو دوسرا سڑکوں اور میڈیا میں کیا گیا۔ انہوں نے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے لوگوں کو شامل کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی ایم آئی اور آئی ایس آئی کے لوگ شامل کر دیے جائیں تو آپ کو کیسا لگے گا۔ گمان تھا کہ اس فیصلے میں سے سونے کی بوریاں اور پتا نہیں کیا کچھ نکلے گا لیکن نکلا کیا اقامہ۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو آئین کا بچہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے رول آف لاء کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ کہا کہ اس فیصلے کی نقش پا اسٹیبلشمنٹ تک جاتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہر دس سال بعد انگلی کے اشارہ پر چلنے والا لیڈر تیار کر لیا جاتا ہے۔ آئی ایس ایس پی آر اپنی بات سیاسی جماعتوں اور چند میڈیا والوں کے ذریعے کرواتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر بولیں کہ سیاسی جماعتوں سے کہتی ہوں کہ62۔63 کو تہتر کے آئین کی اصل شکل میں واپس لائیں اور جو سیاسی پارٹی اس میں ساتھ نہیں دے گی اسے سمجھا جائیگا کہ وہ کسی اور قوت کی پارٹی ہے۔ یہ بھی مشورہ دیا کہ سترہ لوگوں کے ہاتھ میں آئین کی تشریح کا اختیار نہ دیں۔ انہوں نے نئے وزیر اعظم کو بنیادی انسانی حقوق کی بحالی، فاٹا میں سپریم کورٹ کی عملداری قائم کرنے اور نواز شریف کو سپریم کورٹ فیصلے کے بعد ریلیف کیلیے سڑکوں پر آنے کا مشورہ آنے کا مشورہ دیدیا۔ کہا کہ نواز شریف ہتھکڑیاں لگوا کے بیڑیاں پہن کے جیل جائیں تاکہ سب کو پتا چلے کہ کیا ہو ریا ہے۔ عمران خان پر عائشہ گلا لئی کے الزامات اور اسکے بعد کی صورتحال پر انہوں نے کہا کہ دفاع کرنے والون نے عمران خان کو بابائے حقوق خواتین قرار دیدیا۔ بعض حلقوں کی جانب سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کی تحقیر کی مذمت کرتے ہوئے فوج کو بارکوں میں واپس جانے اور کمزور ججوں کو سپریم کورٹ نہ آنے کا مشورہ بھی دیا کہتی ہیں کہ اپنے فیصلے گاڈ فادر اور مافیا سے شروع کرنے والے جج لینڈ مافیا کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکے۔ ہم نے لاپتا افراد کیس میں پوچھا تھا کہ سپریم کورٹ پوچھے کہ آئی ایس آئی کس قانون کے تحت کام کرتی ہے؟ انہوں نے فوج کے سیاسی کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ دفاعی بجٹ پارلیمان میں زیر بحث کیوں نہیں لایا جا سکتا؟ کیا انہیں بجٹ عوام کے ٹیکسز سے نہیں دیا جاتا۔ کیا یہ ملک صرف وردی والوں کا ہے ؟ انہون نے کہا کہ ہماری عدالتیں کمزور ہیں، فوج کو واپس بارکوں میں جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ کمزور ریڑھ کی ہڈی والے جج بھی سپریم کورٹ نہ آئیں۔

میاں کاشان

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے