چھ ہزار قبائلیوں کی شہریت
Reading Time: 2 minutesکون پاکستانی ہے اور کس کی شہریت افغانستان کی ہے، سپریم کورٹ نے معاملے بھی ختم کر دیا اور ایک کروڑ روپے فیس لینے والے سینئر قانون دان و پارلیمنٹرین کو بھی آئین پڑھنے کے لیے کہہ دیا _
سپریم کورٹ نے مہمند ایجنسی کے 6 ہزار رہائشیوں کو پاکستانی شہریت دینے کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی، جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے شہریت دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل خارج کردی، شہریوں کو شناختی کارڈ سمیت تمام حقوق دینے کا حکم برقرار رکھا گیا، جسٹس قاضی فائز نے سینئر قانون دان وسیم سجاد سے پوچھا کہ ان قبائل کو شہریت دینے پر آپ کا کیا اعتراض ہے، وکیل نے جواب دیا کہ درخواست گزار علاقے کا ملک/سردار ہے، وکیل وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ متعلقہ افراد پاکستانی نہیں بلکہ افغان ہیں، وکیل کے علاقے کا ملک ہونے کا موقف اپنانے پر عدالت برہم ہو گئی، جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ ملک، سردار کی آئین و قانون میں کیا حیثیت ہے، آپ جیسا سینئر پارلیمنٹیرین اگر سرداری نظام کو تحفظ دے گا تو ملک کیسے چلے گا، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آئین کھول کر بتائیں ملک، سردار کا آئین میں کہاں ذکر ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ برما کے مسلمانوں کیلئے تو ہم مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، اپنے شہریوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں، وکیل نے کہا کہ میرا موقف یہ نہیں کہ انھیں ملک سے نکالا جائے، شناختی کارڈ کے اجرا کے فیصلے کیخلاف آیا ہوں، جج بولے کیا ہم بھی روہنگیا مسلمانوں کی طرح اپنے شہریوں کی شہریت ختم کردیں، ان قبائل کے حق میں آئی ایس آئی نے بھی اپنی رپورٹ دی، آئی ایس آئی رپورٹ کو کسی نے چینلج نہیں کیا، عدالت نے اپیل خارج کر کے چھ ہزار قبائلیوں کو شہریت دینے کا ہائیکورٹ کا فیصلہ درست قرار دیا، سپریم کورٹ میں مہمند ایجنسی کے ملک عبدالرحمان، ملک فیاض کی جانب سے اپیل کی گئی تھی_