جنرل کابل کیوں گئے؟
Reading Time: 2 minutesامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطے کے لیے پالیسی بیان کے بعد پاکستان میں امریکی حکام کے لیے رویہ سرد مہری پر مبنی ہے مگر اس دوران پاکستانی حکومت اور فوج کے سربراہ کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان کے اعلی حکام سے رابطے برقرار رکھتے ہوئے مسائل کا حل خود تلاش کیا جائے _
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں افغان سفیر کو فوج کے صدر دفتر بلا کر ملاقات کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فیصلہ کیا ہے کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے براہ راست ملاقات کر کے کچھ باتیں کھل کر کی جائیں _
اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر عمر ذخیلوال کو افغان صدر کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے، وہ گزشتہ ایک ماہ سے سفارتی سطح پر پاکستان کے اعلی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف رہے ہیں، افغانستان کے سفیر نے وزارت خارجہ کے اعلی افسران سے بھی ملاقاتیں کیں، تاہم چونکہ پاکستان میں افغان پالیسی پر فوج کی اعلی قیادت کا مکمل اختیار ہے اس لیے جی ایچ کیو سے ہمہ وقت رابطے میں رہنے والے عمر ذخیلوال نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور صدر اشرف غنی کے درمیان تیز رفتار سفارت کاری کے جوہر دکھاتے ہوئے ملاقات ممکن بنائی، افغانستان کے سفارت خانے کے ایک اہم عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ کی خواہش پر اس دورے کا شیڈول تیار کیا گیا جو ایک روزہ ہے _ واضح رہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی گزشتہ ایک سال سے پاکستان کے بارے میں اپنی مایوسی ظاہر کرتے رہے ہیں جبکہ پاکستان میں اشرف غنی کے حوالے سے یہ تاثر ہے کہ وہ اپنے ملک میں بھارتی کردار کو بڑھا کر پاکستان کو زچ کرنا چاہتے ہیں _
پاک افغان تعلقات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ایک روزہ دورے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں تاہم اس سے دونوں ممالک کے اعلی حکام کے درمیان برف پگھلنے کا آغاز ہوگا _