عملی سیاست کے تقاضے
Reading Time: 5 minutesشہباز شریف صاحب جب اپنے بڑے بھائی سے ملنے کے لئے لندن جانے والی پرواز لے چکے تو طلعت حسین نے اپنے پروگرام میں اتوار کی شب پنجاب حکومت کے ترجمان کو لے لیا۔ یہ ترجمان ٹھنڈے مزاج کے نوجوان ہیں۔ ان سے اسلام آباد میں صرف ایک سرسری ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے والد سے اگرچہ 1985 کے بعد سے بہت ملاقاتیں رہیں۔ بلھے شاہ کے شہر قصور کے ایک طاقت ور Electable ہوتے ہوئے بھی اقتدار کا کھیل کھیلتے ہوئے وہ کافی محتاط ہوا کرتے تھے۔ شاہ محمود قریشی کے والد کو جب ضیاءالحق نے گورنر پنجاب بنوا دیا تو ان کی سینٹ کی ڈپٹی چیئرمینی سے رخصتی کے بعد بڑے ملک صاحب کو یہ منصب مل گیا تھا۔ اس عہدے کے حصول کے بعد وہ غلام اسحاق خان کے بہت قریب ہوکر اسلام آباد سے پورے ملک پر راج کرنے والی سول اور ملٹری Oligarchy کے ذہن کو پوری طرح سمجھنے کی لگن میں مبتلا ہوگئے۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ ان کے ولی عہد نے جو اب پنجاب حکومت کے ترجمان بھی ہیں وقت شناسی ورثے میں حاصل کی ہے۔ عملی سیاست کے تقاضوں کو جبلی طور پر سمجھتے ہیں۔
اپنی فراست کا مظاہرہ پنجاب حکومت کے ترجمان نے اتوار کی شب ہوئے پروگرام میں بھرپور انداز میں کیا۔ واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ شہباز شریف صاحب پاکستان مسلم لیگ (نون) کی مرکزی اور صوبائی حکومت کو بخیر و عافیت آئندہ انتخابات کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ انتخابات یقینی طور پر وقتِ مقررہ پر دیکھنے کی خواہش ہے۔ آئندہ ا نتخابات کو جیتنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ (نون) کو لیکن ایک متاثر کن بیانیہ درکار ہوگا۔
پنجاب حکومت کے ٹھنڈے مزاج ترجمان اصرار کرتے پائے گئے کہ نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلیت کو مظلومیت کی داستان بناکر آئندہ انتخابات نہیں جیتے جاسکتے۔ نظر بظاہر، نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کے لئے کوئی گہری سازش رچائی گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے پاس مگر اس ممکنہ سازش کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ ”ہمیں ہرگز خبر نہیں کہ (مثال کے طورپر)کونسے جنرل نے کس جج کے ساتھ مل کر نوازشریف کو ہٹایا ہوگا“وہ بارہا دہراتے رہے۔
پنجاب حکومت کے ترجمان کی گفتگو کافی معقول سنائی دی۔ اگرچہ "Ideologue Politics” کی ترکیب کا استعمال ہرگز مناسب نہیں تھا۔ غالباََ وہ ”خیالی سیاست“ کا مقابلہ ”عملی سیاست“ سے کرنا چاہ رہے تھے اور اسی کے لئے ”آئیڈلزم “کاتذکرہ ہونا چاہیے تھا۔ ان کا یہ دعویٰ اگرچہ بالکل درست تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) سے تعلق رکھنے والے اراکینِ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثریت "Ideologue Politics” اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ بُرے وقت کو نیویں نیویں ہوکر گزاردیا جائے۔ آئندہ انتخاب جیتنے کے بعد ان کی جماعت دوبارہ اقتدار میں آگئی تو فریش مینڈیٹ کی بدولت نواز شریف کی جاں خلاصی کی بھی کوئی صورت نکال ہی لے گی۔
پنجاب حکومت کے جواں سال ترجمان کی زبانی ”عملی سیاست“ کے تقاضوں کو منطقی دلائل کے ساتھ سنتے ہوئے میرے ذہن میں تواتر کے ساتھ یہ سوال اٹھا کہ نواز شریف کے ساتھ "Ideologue Politician”ہونے والا سانحہ کب رونما ہوا تھا۔لاہور کے ایک معروف صنعت کار خاندان سے تعلق رکھنے والے نواز شریف 80ءکی دہائی میں جنرل ضیاءکی فوجی آمریت نے دریافت کئے تھے۔ ہماری ریاستی اشرافیہ 1992تک ان کی مسلسل سرپرستی فرماتی رہی۔
غلام اسحاق خان کے خلاف 1992میں بغاوت کے باوجود نواز شریف ہمیشہ وہی سیاست کرتے رہے جسے روایتی کہا جاتا ہے۔ جلسے اور جلوسوں والی سیاست۔ اپنے گرد Electables کے ہجوم کو جمع کرنا۔ ہماری ریاست کی دائمی اشرافیہ کے ساتھ اشتراک سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں کو فارغ کروا کر قبل از وقت انتخاب حاصل کرکے وزارتِ عظمیٰ کے دفتر پہنچ جانا وغیرہ وغیرہ۔
جنرل مشرف کے فوجی ٹیک اوور کے بعد بھی نواز شریف امریکی صدر کلنٹن کی مہربانی اور سعودی شاہی خاندان سے تعلق کی وجہ سے کئی برسوں کے لئے جلاوطن ہوگئے تھے۔ انہوں نے چیئرمین ماﺅ کی طرح انقلابی جدوجہد کا کوئی فلسفہ ایجاد نہیں کیا ہے۔ نہ ہی گوریلا جنگ کے کسی تخلیقی نظریے کے ذریعے اقتدار کے حصول کی خواہش کی ہے۔ ٹھوس حوالوں سے بلکہ نواز شریف کو ”عملی سیاست“ کی ایک بھرپور علامت تسلیم کرنا چاہیے۔
وقت بھی لیکن بہت ستم گر ہوتا ہے۔ 1981 سے 2017 کی جولائی تک ”عملی سیاست“ کی ا یک حتمی مثال ”نواز شریف“کو ان کے بھتیجے حمزہ شہباز شریف کے بعد اب پنجاب حکومت کے جواں سال ترجمان کے ذریعے ”عملی سیاست“ کے تقاضے سمجھانا مجھے بہت عجیب لگا۔ اکثر یہ خیال بھی ا ٓیا کہ اپنے بھتیجے اور اس کے تقریباً ہم عمر پنجاب حکومت کے ترجمان سے ”عملی سیاست“ کا سبق سنتے ہوئے نواز شریف کیا محسوس کر رہے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ذہن میں یہ خیال آئے کہ ان کی جماعت سے متعلقہ نئی نسل یہ محسوس کرنا شروع ہوگئی ہے کہ ”بڈھا سٹھیا گیا ہے“۔ خود تو ڈوبے ہیں صنم،تم کو بھی لے ڈوبیں گے والی سیاست شروع کر بیٹھا ہے۔
”عملی سیاست“ کا چورن بیچنے والوں سے میرا محض ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی لندن میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے دوران ان سے کیا تقاضہ کریں گے؟
نواز شریف کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان دنوں لندن میں گوشہ نشین ہوں۔ بیگم کلثوم صاحبہ کی تیمار داری میں مصروف ہوجائیں اور بھلے وقت کا انتظار کریں۔ ان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمات ہیں۔ فردِ جرم عائد ہوچکی ہے۔ گزشتہ پیشی پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف ضمانت والے وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں۔ آئندہ پیشی پر بھی وہ موجود نہ ہوئے تو یہ وارنٹ ”بلاضمانت“ ہوجائیں گے اور بالآخر بات انہیں ”اشتہاری“ قرار دینے تک پہنچ سکتی ہے۔ احتساب عدالت کے ہاتھوں ”اشتہاری“ قرار دئیے جانے کے بعد سیاسی اعتبار سے نواز شریف جنرل مشرف کی طرح ہوجائیں گے جنہیں پاکستان مسلم لیگ (نون) کئی برسوں سے مسلسل ”بھگوڑا“ ہونے کے طعنے دے رہی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ سیاست دان ڈھیٹ ہڈی کے بنے ہوتے ہیں۔ ”بھگوڑا“ کہلوانے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ”عملی سیاست“ کے جواں سال پروموٹروں کو مگر یہ حقیقت ذہن میں رکھنا ہوگی کہ نواز شریف ایک والد بھی ہیں۔اس حیثیت میں انہیں اپنی اولاد کے لئے ا یک Security Anchor کا کردار ادا کرنا ہے۔ ان کے بیٹے عملی سیاست سے دور ہیں۔ شاید ان کی برطانیہ میں رہائش ان کے ”اشتہاری“ قرار دئیے جانے پر حقیقی معنوں میں اثر اندازنہ ہو۔
مریم نواز شریف اپنے شوہر سمیت مگر پاکستان میں موجود ہیں اور احتساب عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہی ہیں۔ ہمارے پدرسری معاشرے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی باپ کی چہیتی بیٹی عدالت کی پیشیاں بھگت رہی ہو اور اس کا باپ ”اشتہاری“ ہوا لندن میں محفوظ بیٹھا رہے۔
پنجاب حکومت کے جواں سال ترجمان کی بنائی "Ideologue” نہیں ”عملی سیاست“ کا تقاضہ ہے کہ نواز شریف فوراََ وطن لوٹیں اور احتساب عدالت کا سامنا کریں ۔پاکستان مسلم لیگ (نون) کی ”عملیت پسند“ اکثریت ان کی احتساب عدالتوں کے روبرو ذلت ورسوائی برداشت نہیں کرسکتی تو ایک ہنگامی اجلاس بلائے۔ نواز شریف کو اپنی جماعت سے نکال باہر کرنے کا ”عاق نامہ“تیار کرے اور ا ٓئندہ انتخابات جیتنے کی تیاری شروع کردے ۔ پاکستان مسلم لیگ کے ”عملیت پسند“ ایسا قدم اٹھانے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔
بشکریہ نوائے وقت