کالم

فیصلوں سے بو نہیں آنی چاہیے!

نومبر 10, 2017 2 min

فیصلوں سے بو نہیں آنی چاہیے!

Reading Time: 2 minutes
 کوئی اِن سے پوچھے کہ آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟ جو کچھ اِنہوں نے کیا ہے، اِس طرح تو کوئی چھابڑی فروش بھی نہیں کرتا کہ اپنے گاہک سے ہی لڑنا شروع کردے، گالیاں دینا شروع کر دے، تعصب کا مظاہرہ کرنے پر اُتر آئے، برا بھلا کہہ کر اگلے پچھلے حساب بے باک کرنے پر تل جائے! لیکن اِنہوں نے یہی تو کیا ہے۔ یقین نہیں آتا تو کسی بھی ایسے شخص سے پوچھ لیں، جس کی ذمہ داری میں روزانہ گھر کے لیے ترکاری خریدنے کا فریضہ بھی شامل ہو۔ اگر ایسا شخص ایک دن خریدی ہوئی سبزیاں اور پھل (جو باسی، گلی سڑھی یا بدبودار نکل آئیں تو) اگلے دن اُسی سبزی روش کو واپس کردے، تو وہ دکاندار بھی سبزیوں اور پھلوں کا پلاسٹک کا تھیلا کھولے بغیر ایک طرف رکھ لیتا ہے اور نئے شاپر میں اُسی مقدار میں نئی سبزیاں اور نویلے پھل ایک ایک کرکے ڈال کر گاہک کو تھما دیتا ہے، بلکہ پہلے سے وزن اور تعداد بھی بڑھا دیتا ہے کہ اس کے گاہک کو کوئی شکوہ نہ رہے۔ 
یہ ہوتی ہے بصیرت! یہ ہوتی ہے دانائی! کیونکہ ایک چھابڑی فروش بھی جانتا ہے کہ اگر گزشتہ روز فروخت کیے گئے سودے پر گاہک کی جائز شکایت سننے کی بجائے اُس نے گاہک کو اُلٹا لتاڑنا شروع کردیا اور گاہک کے گزشتہ روز کی آمد کو منحوس قرار دینا شروع کردیا کہ گاہک کی وجہ اُس کی گزشتہ روز آمدن ہی انتہائی بری رہی تو وہ گاہک ایسا شور مچائے گا کہ اس کا سارا دھندا چوپٹ ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ اگر دکاندار کا کریکٹر پہلے ہی مشکوک ہو کہ وہ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے کے حوالے سے بدنام ہو، سودے میں ہیرا پھیری اُس کا وطیرہ بن چکا ہو، مال میں ملاوٹ کرنا اس کی عادت ثانیہ ہو اور ترازو اور باٹوں میں کم و بیشی کرکے گاہکوں کو الو بنانا اُس کی رگ رگ میں شامل ہو تو پھر تو شکایت لے کر آنے والے کے سامنے چھابڑی فروش کو اور بھی زیادہ محتاط ہونا پڑتا ہے کہ ایسے میں بار بار کا ڈسا ہوا کوئی گاہک، جس پر سبزی فروش کی ہیرا پھیرا مکمل آشکار ہو چکی ہو، وہ اُس کا ٹھیلا اُلٹا بھی سکتا ہے۔ 
تو کیا آپ کو اس بات کا احساس ہے کہ نظر ثانی کے بعد جو آپ نے کیا، اِس طرح تو کوئی چھابڑی فروش بھی نہیں کرتا کہ گاہک سے لڑنا شروع کر دے، سودے پر نظرثانی کی درخواست لے کر آنے والے کو گالیاں دینا شروع کر دے، گلے سڑے پھل کی شکایت کرنے والے کو اُلٹا برا بھلا کہہ کر اگلے پچھلے حساب بے باک کرنے پر تل جائے! کیا کوئی آپ سے پوچھ سکتا ہے کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ کیا آپ یہ دکان نہیں چلانا چاہتے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ سے سودا خریدنا بند کر دیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے بارے بلند آہنگ آواز میں اور اُسی لہجے میں بات کرنا شروع کردیں، جو آپ کا وطیرہ بن چکی ہے؟
کیا ایک عام ٹھیلے والا جو بات سمجھتا، آپ وہ بھی نہیں سمجھتے کہ سبزیوں اور پھلوں سے چاہے سڑانڈ اُٹھ رہی ہو، لیکن گاہک کے سامنے دکاندار کے رویے سے بدبو نہیں آنی چاہیے! بیس سال تک یاد رکھے جانے والے فیصلوں میں ناولوں اور شاعری کے حوالے دینے والوں کو کیا یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر رویے سے بدبو آنی شروع ہو گئی تو آپ کی دہلیز کے باہر لگے ترازو میں لوگ آلو پیاز تولنے کیلئے تیار نہ ہوں گے۔
Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے