متفرق خبریں

فلم ’ورنہ‘ میں کیا ہے

نومبر 14, 2017 3 min

فلم ’ورنہ‘ میں کیا ہے

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کے مشہور فلم ڈائریکٹر شعیب منصور کی نئی فلم نمائش کیلئے پیش ہونے سے قبل ہی انتہائی متنازع ہو گئی۔ سنسر بورڈ نے نمائش کیلئے پیش کرنے سے قبل فلم کا جائزہ لیا ہے اور اسے منظور کرنے کا سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق فلم کا کوئی ایک سین نہیں بلکہ پوری تھیم اور اسکرپٹ ہی انتہائی متنازع ہے اور اس کی نمائش سے ملک میں نقص امن کا خطرہ ہے۔ فلم کی کہانی گورنر کے بیٹے اور ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کاریپ کیا گیا ہے۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ہیروئن ماہرہ خان اسلام آباد میں گورنر پنجاب کیلئے لگنے والے روٹ پر اعتراض اٹھاتی ہے اور اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔ جس کے بعد گورنر کا بیٹا اس کو سبق سکھانے کیلئے اغوا کرکے ریپ کرتاہے۔ کہانی کے مطابق ہیروئن شادی شدہ اور قبائلی جوان کی بیوی ہے۔ ریپ کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں درج کیا جاتاہے۔ جس کے بعد کہانی میں گورنرپنجاب، وفاقی وزیرداخلہ، پولیس سربراہ اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ملزم کی پشت پناہی کرتے دکھایا گیا ہے۔
ایک سین میں گورنر پنجاب کو کعبہ کے سامنے احرام میں طواف کرتے دکھایا گیا ہے جہاں سے وہ وزیرداخلہ کو فون کرکے کہتاہے کہ میرے بیٹے کو ہرقیمت پر بچاﺅ۔ اپنے وزیراعظم کو بتادو، نہیں تو میں اپنے ارکان قومی اسمبلی کو کہہ دوں گا اور حکومت گر جائے گی۔ فلم میں گورنر کے بیٹے کو بچانے کیلئے وزیرداخلہ ڈی جی ایف آئی اے کو استعمال کرتے ہیں اور دبئی کے شہزادے سے بھی مدد طلب کی جاتی ہے تاکہ ملزم کو وقوعہ کے وقت بیرون ملک دکھایاجاسکے۔
کہانی کے مطابق جب ریپ کی جانے والی ہیروئن کا میڈیکل کرانے کا معاملہ آتاہے تو وکیل اس کو کہتی ہے کہ ریپ کو بہت وقت گزرگیا ہے اس لیے رپورٹ تمہارے حق میں نہیں آئے گی، تم ایسا کرو کہ دوبارہ گورنر بیٹے کے پاس جاکر اس سے جنسی تعلق قائم کرو تاکہ رپورٹ میں وہ پھنس سکے۔ اس طرح ہیروئن ریپ کو ثابت کرنے کیلئے ملزم کے پاس دوبارہ جاکر جنسی تعلق قائم کرتی ہے۔
ایک اور سین میں ٹی وی ٹاک شو دکھایا گیا ہے جس میں ریپ سے متاثرہ لڑکی، خاتون وکیل اور ایک مولانا کرتے ہیں اور جب مولانا کہتے ہیں کہ اس خاتون نے لباس کیسے پہنا ہواہے تو وکیل کہتی ہے کہ آپ کے مدرسوں میں تو لڑکوں نے پورا لباس پہنا ہوتا ہے پھر بھی ان کو نہیں چھوڑتے۔
کہانی میں متاثرہ لڑکی کے شوہر کو بھی اس کے خلاف ہوتے دکھایا گیا ہے جس کے بعد وہ اپنے شوہر سے دوری اختیار کرتی ہے اور ملزم سے بدلہ لیتی ہے۔ فلم کی کہانی کے مطابق عدالت متاثرہ لڑکی کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ سنسر بورڈ میں آئی ایس آئی کے نمائندے نے فلم دیکھنے کے بعد تبصرہ کیاکہ تمام سول اداروں کے عہدیدار تو فلم میں دکھا دیے گئے ہیں صرف ایک جنرل ہی رہ گیا تھا اس کو بھی دکھا دیتے۔
فلم کی کہانی سے واقف ایک مبصر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ یہ بنیادی طور پر سول اداروں اور جمہوری نظام حکومت کو منظم طور پر نشانہ بنانے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل فلم ’مالک‘ میں بھی ایک سین سندھ کے وزیراعلی کا دکھایا گیا تھا۔
فلم دیکھنے والے ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ بظاہر یہ فلم غیرملکی ناظرین کیلئے ہے کیونکہ پاکستان میں ابھی اتنی آزادی نہیں کہ ایسی فلم کوئی اپنے خاندان تو کیا گرل فرینڈ کے ساتھ بھی بیٹھ کر دیکھ سکے۔ عہدیدار کا کہنا تھاکہ ایسا لگتاہے کہ اس فلم کیلئے غیر ملکی این جی اوز کی جانب سے فنڈنگ کی گئی ہے۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے