اسلام آباد سے راولپنڈی
Reading Time: 5 minutesاے وحید مراد
اتوار، چھبیس مئی کی صبح بھی عام دنوں کی طرح ہی تھی مگر گزشتہ روز کے فیض آباد دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے میں پولیس کی ناکامی اور شرپسندوں کی جانب سے جلاﺅ گھیراﺅ کے بعد فضا میں غیر مانوس خاموشی تھی۔ ایسے میں طے کیا کہ راولپنڈی کا سفر کرکے آنکھوں دیکھا حال لکھنے کا بہانہ ڈھونڈا جائے۔
بارہ بجے پرائیویٹ کمپنی کی ٹیکسی منگوائی اور نوجوان ڈرائیور کو کہا کہ شہر کے آئی ایٹ سیکٹر جانا ہے ۔ آبپارہ سے کشمیر ہائی وے پر ہو لیے۔ زیروپوائنٹ پل کے پار بائیں طرف مڑے کیونکہ اسلام آباد ایکسپریس وے سے فیض آباد جانے والی سڑک بند پڑی تھی۔ ایچ ایٹ قبرستان میں سارے خاموش پڑے تھے اور سامنے محکمہ موسمیات کے دفتر کی ٹینکی پر مزدور پالش پھیر رہے تھے۔
شفا انٹرنیشنل کے سامنے بھی سڑک سنسان تھی، صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ سے میر چاکر خان روڈ تک اکا دکا گاڑیاں نظر آئیں، آئی ایٹ سیکٹر کے مرکز سے گزرے تو درجنوں ٹی وی چینلوں کی سیٹلائٹ گاڑیوں کے انٹینے آسمان کی طرف منہ کیے لوگوں کی اسکرینوں تک صابروں و شاکروں کے اول فول تجزیے پہنچانے میں مصروف تھے۔
آئی سیریز کے سیکٹرز اسلام آباد کے راولپنڈی کی جانب آخری حد ہیں، یہاں نوجوان ڈرائیور کا ماتھا ٹھنکا، تیور بھانپتے ہوئے میں نے کہا کہ تھوڑا آگے جا کر آپ یوٹرن لے لیں، اتر جاﺅں گا کیونکہ سڑک جہاں آئی جے پی روڈ سے ملتی ہے اس پر کنٹینر کھڑا کرکے بند کیا گیا ہے۔ وہاں سے پانچ منٹ پیدل طے کیے تو رینجرز کے تین ٹرک تین درجن اہلکاروں کے ساتھ موجود تھے اور لگتا تھا کہ بس جوان جنگ میں کودنے کیلئے تیار کھڑے ہیں۔
آئی جے پی روڈ پر فیض آباد میٹرو پل کے نیچے سے گزرے تو سیڑھیوں کے ساتھ لگے شیشے ٹوٹے نظر آئے۔ پانچ منٹ مزید واک کی تو مری روڈ پر پہنچا، اصل منظر یہاں تھا۔ شرپسندوں کے ڈنڈا بردار جھتے سڑک پر گشت کررہے تھے، گزشتہ روز جلائی گئی پولیس وین کو الٹا کر سڑک کے درمیان کھڑا کیا گیا تھا، سڑک کے درمیان لگی لوہے کی گرل کو توڑ کر بیرئیر بنائے گئے تھے ۔ آگے بڑھتے ہوئے پولیس بسوں سے اٹھتے دھویں کی تصاویر بنانے کی کوشش کی تو ایک بلوائی نے اشارہ کیا۔ صدر کی طرف رخ کرکے چلنا شروع کیا تو دائیں طرف حمزہ کیمپ (اوجڑی کیمپ) کے مرکزی دروازے پر رینجرز کے اہلکار چوکس کھڑے دکھائی دیے اور ان سے چند قدم کے فاصلے پر سڑک کے درمیان شرپسندوں ڈنڈے ہاتھ میں اٹھائے آنے جانے والوں پرنظر رکھے ہوئے تھے۔ فیض آباد سے بارانی یونیورسٹی تک مری روڈ پر شرپسند تھے، پولیس کی جلی ہوئی گاڑیوں سے اٹھتا ہواتھا دھواں تھا، موٹر سائیکل اور چنگ چی والے تھے۔
پیدل بارانی یونیورسٹی کے سامنے پہنچا اور پھر چنگ چی والے سے بات کی تو ایک سواری تیس روپے میں راضی تھا۔ مگر منزل صرف کمیٹی چوک تھی اس سے آگے جانے کا اس کا شاید روٹ نہ تھا۔ راستے میں صرف سکستھ روڈ میٹرو اسٹیشن پر رینجرز کے چھ جوان نظر آئے۔ کمیٹی چوک تک سڑک پر معمول کی ٹریفک کا بہاﺅ تھا۔ وہاں سے رکشے والے سے بات کی تو ایک سو روپے صدرجانے کے مانگے۔ راستے میں وارث خان میٹرواسٹیشن کے نیچے عاشقوں کا ہجوم اکھٹا ہورہاتھا مگر قسمت اچھی تھی کہ ان کا رخ فیض آباد جانے والی سڑک پرتھا، ہم صدر کی طرف رواں دواں تھے۔ وارث خان کے قریب ہی مری روڈ پر عاشقوں کا جلوس گزررہاتھا جس کے پیچھے درجنوں گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ رکشہ چلانے والا لڑکا کچھ بڑبڑایا جو سمجھ میں نہ آسکا۔
لیاقت باغ، مریڑ چوک اور صدر تک راستے میںدونوں طرف ہارن بجاتی گاڑیوں کی قطار تھی۔ صدر میں اتر کر ایک برانڈ کی دکان کا رخ کیا تو شٹرآدھا گراہواتھا، اندر ایک فیملی خریداری میں مصروف تھی، کچھ سیلزمین باہر فٹ پاتھ پر کھڑے حالات کا جائزہ لے رہے تھے، ہمیں اندر جانے سے روک دیاکہ دکان بند ہے، پوچھا کیوں؟ تو جواب دیاکہ ہڑتال ہے۔ اگلا سوال پوچھاکہ کس بات کی ہڑتا ل ہے ؟ توگستاخ نے جواب دیا کہ بس جی، مولویوں کی وجہ سے۔
مرکزی شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے جو دکانداراپنا کاروبار بند کررہے تھے یاجنہوں نے دن ایک بجے تک دکان کھولی ہی نہ تھی ان کے گاہک ساتھ ہی بڑی گلی میں موجود دیگر برانڈ کی دکانوں کا رخ کررہے تھے، ہم نے بھی وہیں جانے کا فیصلہ کیا۔ آگے گئے تو تمام بڑے شاپنگ مال کھلے تھے، گکھڑ پلازہ کے بعد سٹی سنٹر بھی خریداروں کے قدموں تلے تھا۔ ہوٹل کھلے تھے اور ان کے سامنے بھیک مانگنے والے بھی موجود تھے۔ فٹ پاتھ پر ادھیڑ عمر کی ایک خاتون بھی بچوں کے پہناوے بیچ رہی تھی۔
مارکیٹ کے فٹ پاتھ سے گزرتے ہوئے سناکہ دکان کے باہر کھڑا عاشق ساتھی دکاندار سے کہہ رہاتھا کہ دیگر علاقوں میں مارکیٹس بند ہیں ایک یہ ہمارے(گالی) یونین والے ہیں جن سے فیصلہ نہ ہوسکا، ادھر بندے مرگئے ہیں اورہم نے دکانیں کھولی ہوئی ہیں۔ وہاں سے ریلوے اسٹیشن کارخ کیا تو واہ کینٹ جانے والی وین پر مسافرٹوٹ پڑے ۔ کچھ دیر رک کرسنا تو معلوم ہواکہ ٹیکسلا میں سڑک بند ہے، گاڑی وہاں سے جائے گی پھر پیدل آگے جاکر دوسری گاڑی لے لیں گے۔ ڈرائیور نے مسافروں سے کہاکہ سو روپے فی سواری تو ایک لڑکا بولا کہ آج تو جانے بھی ٹیکسلا تک ہے عام کرایہ تو واہ کینٹ تک پچاس روپے ہے۔ ڈرائیور بھی شاید عاشق رسول تھا فورا جواب دیاکہ جس نے نہیں جانا اتر جائے۔
یہ تماشا دیکھنے تک چار بج چکے تھے۔ ریلوے اسٹیشن کے سامنے کھڑی ٹیکسیوں میں سے سب سے کھٹارا گاڑی کا انتخاب کیا اور اسے کہاکہ آئی جے پی روڈ جاناہے۔ ڈیڑھ سو روپے میں راضی ہواتو ریلوے کالونی والی سڑک پر ویسٹریج کے ساتھ سے نکلے، درمیان میں فوجی بھائیوں نے ایک ناکہ بھی لگایا ہوا تھا جو اس سڑک پر پہلی بار نظر آیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ اس کے بیٹے ٹیکسلا سیمنٹ فیکٹری میں ہیں، کل فیض آباد میں دھرنے والوں نے اس کی کھٹارا گاڑی پر ایک ہی ڈنڈا برسایا تھاکہ مہارت سے نکل آیا، راست ٹیکسلا جانے کیلئے ترنول تک پہنچا تھاکہ سڑک بند تھی ۔ پھر پوچھاکہ یہ آئی جے پی روڈ کیوں کہاجاتاہے؟ میں نے جواب دیاکہ شاید کسی پرنسپل کے نام پر ہے۔ پوچھاکہ سب کچھ بند ہے کیا آپ کے پاس نیٹ ہے دیکھ کر بتاسکتے ہیں کہ ملک میں کیا ہورہاہے؟ جواب دیاکہ کچھ نہیں ہورہا بس چوکیدار بدمعاشی پر اترے ہوئے ہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا جس دن مولوی ٹھیک ہوگئے۔ راستے میں دیکھا کہ بیکری چوک کے بعد ریلوے ہسپتال کے پچھواڑے میں واقع گراﺅنڈ گستاخوں سے بھرا ہوا تھا، سینکڑوں کرکٹ کھیل رہے تھے اور درجنوں تاش کی بازی لگائے ہوئے تھے۔
کیرج فیکٹری کے سامنے اتر کر اسلام آباد والی طرف سے پیرودھائی کا رخ کیا۔ پیدل مارچ کرتے ہوئے جگہ جگہ گزشتہ روز جلائے گئے ٹائروں کی کالک بکھری ہوئی تھی، سڑک سے گاڑیاں گزرتیں تو کالک اڑ کر ملک کے چہرے پر پھیلتی محسوس ہوتی۔
آئی جے پی روڈ پر ٹریفک کا بہاﺅ زیادہ تھا مگر پیرودھائی چوک میں مرکزی شاہراہ پر پندرہ عاشقان اور ان کے پچاس تماشائی سڑک بند کیے بیٹھے تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ دس قدم دور متوازی سروس روڈ گاڑیوں کیلئے کھلی تھی۔ پیدل گشت کرتے، آئی الیون سے آئی ٹین پہنچا، دائیں طرف آئی جی پی روڈ اور اس کے پار راولپنڈی کے گنجان آباد علاقے میں زندگی معمول کے مطابق تھی، بائیں طرف اسلام آباد کے مکانوں کے مکین بے فکر تھے۔ سڑک پر دیکھا ایک بچہ کھلونا پستول لیے، آنے جانے والی گاڑیوں پر نارنجی رنگ کی گولیاں فائر کر رہا ہے۔
اسلام آباد کی نویں شاہراہ (نائنتھ ایونیو) تک پہنچتے ہوئے چھ کلومیٹر پیدل چلتے ہوئے آئی جے پی روڈ پر کچھ غیر معمولی نظر نہ آیا سوائے راولپنڈی کی جانب سے عاشقوں کے لاﺅڈ اسپیکروں پر لبیک کے نعروں کے۔ نویں شاہراہ سے فیض آباد کا دھرنا ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے مگر سڑک پر کنٹینرز کھڑے ہیں۔ اسلام آباد کی طرف جانے والی وین میں بیٹھا تو ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے بزرگ بولے کہ حکومت نے ایک شخص کیلئے پورے ملک میں آگ لگادی ہے۔ ڈرائیور بھی کوئی عاشق تھا کہنے لگا کہ اگر وزیر استعفا دے دیتا تو کیا ہو جاتا۔