بے توقیری نے بہت اداس کیا
Reading Time: 5 minutes’’اسی باعث…منع کرتے تھے‘‘ والا شعر ہفتے کی دوپہر سے ذہن میں گونجے چلاجا رہا ہے۔ کئی بار اس کالم میں اُکتا دینے کی حد تک پہنچی تکرار کے ساتھ اپنے 24/7 چینلوں سے گلہ کرتا رہا۔ کبھی تنقید۔ کبھی فریاد۔ طنز و مزاح کی چٹکیاں کام آتی محسوس نہ ہوئیں تو سخت الفاظ بھی استعمال کرنا پڑے۔
مقصد اس تمام داد فریاد کا ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ والی نارسائی نہ تھی ۔ دس برس سے میرے رزق میں تھوڑی خوش حالی محض پرنٹ جرنلزم سے ٹی وی صحافت کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے آئی ہے۔ اپنے پیٹ پر لات کوئی نہیں مارتا۔ اس کا تحفظ کرتا ہے اور میں دیوانہ نہیں ہوں۔
Ratings اور Breaking News میں سب کو پیچھا چھوڑ جانے کی ہوس میں میرے ساتھیوں کی اکثریت ایسا چلن اپنائے ہوئے تھی جسے کسی بھی ملک کی اشرافیہ،خواہ وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو، برداشت نہیں کرتی۔ اشرافیہ مگر گئی بھاڑ میں۔ اصل دُکھ اس وقت ہوتا ہے جب صحافت کو ملی آزادی کے ساتھ جڑی ذمہ داری کو کامل بے حسی سے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
دُنیا بھر میں Live Coverageکے کچھ اصول ہیں۔ ان کی پاسداری خلقِ خدا کے تحفظ کے لئے عین ضروری ہے۔ بحران کو خبر کی صورت بیان کرتے ہوئے لوگوں کو ہیجان سے بچائے رکھنا صحافت کا اصل ہنر ہے۔ پرنٹ میڈیا نے یہ ہنر مثال کے طور پر مولانا ظفر علی خان کے ’’زمیندار‘‘ اخبار پر تقریباً روزانہ نازل ہوئی مصیبتوں سے سکھایا تھا۔
قیامِ پاکستان اور خاص کر قائداعظم کی رحلت کے بعد ہمارا مقدر بنے حکمران اور ان کو چلانے والی انگریزوں کی تربیت یافتہ بیوروکریسی کو ادیب وصحافی بلااستثناء ’’تخریب کار‘‘ نظر آتے تھے۔ انہیں قابو میں رکھنا اور صحافیوں کو لالچ اور دھونس کے امتزاج سے سب اچھا بتانے والے منشیوں اور قاصدوں میں تبدیل کرنا اس بیورو کریسی کی جبلت میں شامل تھا۔کئی برسوں تک پھیلی جدوجہد کے بعد ہماری پرنٹ صحافت نے مگر بحران کو ہیجان کی صورت دئیے بغیر بیان کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔
24/7کے متعارف ہونے کے چند ہی برس بعد لیکن ’’عدلیہ بحالی کی تحریک‘‘ چلی۔ اس سے قبل 2006 میں آئے زلزلے کو Live Coverage کے ذریعے دکھاتے ہوئے 24/7چ ینلوں نے بہت عزت کمائی تھی۔ اس عزت کی وجہ سے مخیر حضرات دیوانہ وار زلزلہ زدگان کی مدد کرنے کو اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ زلزلے کی Coverage کے ذریعے کمائی ساکھ کو ہم ٹی وی والوں نے’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ والے بحران کو ہیجان کی صورت دینے میں ضائع کردیا۔ جنرل مشرف نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے خلاف انتہائی اقدامات اٹھائے تو خلقِ خدا کی اکثریت کو مگر ہمارے ساتھ ہمدردی محسوس ہوئی۔
ہفتے کی دوپہر ’’ووٹ کی قوت‘‘ سے قائم ہوئی ’’جمہوری حکومت‘‘ نے تمام چینلوں کو مناسب انداز میں اعتماد میں لئے بغیر آن ایئر جانے سے روک دیا۔ ساتھ ہی ٹویٹر اور فیس بک والی سہولتیں بھی غائب ہو گئیں۔ 2017 کے آخری ایام میں ہم اطلاعات تک رسائی کے حوالے سے تقریباً پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ چکے ہیں۔ نام نہاد Global Village کے شہری نہیں رہے۔ شمالی کوریا جیسا ایک ملک بن گئے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اس کے بارے میں پریشان تو ہے مگر حیران نہیں۔ اسلام آباد کا F-9 پارک ہفتے کو وقتِ عصر خاندانوں کے ساتھ آئے شہریوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان میں سے اکثر نے مجھ سے گلہ کیا کہ ’’آپ لوگوں نے بھی ہمیں مستقل ہیجان میں مبتلا رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی‘‘۔ چند ایک نے طنزیہ فقرے بھی کسے۔ میں بہت شرمندہ ہوا۔ صحافت کو پیشہ نہیں ہمیشہ عشق کی صورت اپنے پر طاری رکھا ہے۔ اس پیشے میں عمر گنوا دینے کے بعد اپنی آخری اننگز کھیلتے ہوئے شدت سے محسوس ہوتی اس بے توقیری نے بہت اداس کیا۔ ذہن مائوف ہو گیا۔
حکومت کو مگر ہماری اس وقتی بے توقیری سے مطمئن اور شاداں محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ ایک شے ہوتی ہے Muscle Memory۔ گزشتہ کئی برس سے خوش حال طبقات ہی نہیں نچلے اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی صبح اُٹھتے ہی ریموٹ دباکر ’’تازہ ترین‘‘ ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں۔ کم از کم تین کروڑ لوگوں کے پاس سمارٹ فونز ہیں۔ ان فونز کی بدولت وہ ٹویٹر اور فیس بک کے ذریعے خود کو اطلاعات تک رسائی کے حوالے سے Global ہوئے گائوں کے باسی محسوس کرتے ہیں۔ 24/7 چینل اور انٹرنیٹ کی برق رفتار رابطوں والی سہولتوں کے بغیر آج کے دور میں زندہ رہا ہی نہیں جا سکتا۔
زیادہ دیر ہوئی تو حکومتوں کو بھاری اور مسلسل مالیہ فراہم کرنے والی باقاعدہ انٹرنیٹ سروسز کے متوازی کام کرنے والی Proxies تک پہنچنے کے راستے دریافت ہوجائیں گے۔ ایران کے پاسداران بھی اپنے شہریوں کو انٹرنیٹ اور 24/7 چینل سے جدا نہیں رکھ پائے ہیں۔ پاکستان کی ریاست میں ،جو فیض آباد میں بقول اس کے جمع ہوئے ’’صرف چند ہزار افراد‘‘ پر قابو نہیں پاسکی، اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ 2017 میں تھوڑی کوششوں کے بعد گرفت میں آئی Appsکو کنٹرول کرتے ہوئے ہمیں ٹویٹر اور فیس بک سے دور رکھ سکے۔ بہتر یہی ہے کہ جلد از جلد پہلے سے موجود اور کسی نہ کسی صورت حکومت کے طے شدہ ضوابط کے تحت میسر انٹرنیٹ سے جڑی Apps تک رسائی کو بحال کردیا جائے۔ وگرنہ ہیجان، انتشار کی صورت اختیار کرلے گا۔ پاکستان،میرے منہ میں خاک، شام جیسا ایک ملک بن جائے گا۔
پاکستان کے 24/7چینل کو Regulateکرنے کے ضوابط باقاعدہ موجود ہیں۔ ہفتے کی صبح Do or Dieوالا قدم اٹھانے سے قبل ٹی وی چینل کے مالکان، مدیروں اور عامل صحافیوں کی تنظیموں کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا جاسکتا تھا۔ اس اجلاس میں Live Coverageکے عالمی اعتبار سے طے شدہ ضابطوں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے ’’ورنہ…‘‘کہا جاسکتا تھا۔ تین سے چار بہت ہی اچھی ساکھ والے ان دنوں تقریباًََ ریٹائر ہوئے صحافیوں سے درخواست کی جاسکتی تھی کہ وہ کسی Monitoring نظام کا حصہ بنیں۔ طے شدہ ضوابط کے مطابق کام نہ کرنے والے Bad کو Good سے جدا کریں۔ Bad کو مناسب وارننگ دینے کے بعد ہفتے کے روز ہی آپریشن کے ابتدائی مراحل میں بند کیا جا سکتا تھا۔24/7 چینلوں پراچانک مسلط ہوئی Blanket اور بلا استثناء بندش کا ہرگز کوئی جواز نہیں تھا۔ جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ مگر ہوگیا ہے اور آنے والے کئی دنوں کے لئے یہ ہرگز خیر کی خبر نہیں ہے۔
آنے والے کل کا مؤرخ پاکستان کے بارے میں بلکہ اب ایک ایسا Chapter لکھنے پر بھی مجبور ہوگا جسے میں "Post Nov 26 2017” کا عنوان دوں گا۔اس باب کے لئے مواد کی فراہمی شروع ہوچکی ہے۔ میں اس مواد کے متعلق فی الوقت لکھنا نہیں چاہتا۔ فوری فکر تو یہ نازل ہے کہ 24/7 چینل، ٹویٹر اور فیس بک کی سہولتوں کے بغیر مجھے اپنا بنیادی فرض، خبر کی تلاش اور اسے کسی نہ کسی صورت لوگوں تک پہنچانا کیسے ادا کروں گا۔
اس حوالے سے جلد ہی کوئی راستہ شاید اس وجہ سے بھی ڈھونڈ پائوں کہ کل وقتی صحافت شروع کی تو جنرل ضیاء کا مارشل لاء آگیا تھا۔ کامل 8 برسوں تک اس مارشل لاء کے دوران ’’خبر‘‘ کو ’’تخریب کاری‘‘ کا مترادف بنادیا گیا تھا۔ سینکڑوں دیوانوں کے ساتھ کئی سینئرز کی رہ نمائی میں یہ فریضہ میں کسی نہ کسی صورت ادا کرنے کے قابل ہوا۔ پابندیوں کے باوجود کچھ نہ کچھ کہہ دینے کی ’’اب تو عادت…‘‘ہوچکی ہے۔ حقیقی پریشانی ان ساتھیوں کے بارے میں ہو رہی ہے جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جن سکرینوں پر وہ حق و صداقت کی علامت بنے بیٹھے ہوئے تھے ایک دن کاملاََ Blank بھی کی جاسکتی ہیں اور انہیں دیکھ اور سن کر خوشی سے جھوم اُٹھنے والے "Fans” اسلام آباد کے F-9 پارک کو بھردیں گے اور سکرینوں کے Blank ہوجانے کے بارے میں پریشان نظر نہیں آئیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت