جج نے چینلز کو لتاڑ دیا
Reading Time: 6 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
فیض آباد میں مسلکی جماعت کا دھرنا تو ایک ناکام سیکورٹی آپریشن کے بعد ریاست کے محکموں کے بڑوں کی جانب سے ثالث بننے کے بعد ختم ہوگیا مگر اس دوران پاکستان کے خدوخال کو جو نقصان پہنچاہے اس کی بازگشت اب مختلف اطراف میں سنی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ میں دھرنا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا آغاز کیلئے صحافیوں کو چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ ساڑھے نو بجے کمرہ عدالت میں گھسے اور مقدمے کی باری دن ڈیڑھ بجے کے لگ بھگ آئی۔ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز کی مشتمل دورکنی عدالتی بنچ اور روسٹرم پر کھڑے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرﺅف، ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق اے مرزا، وزارت دفاع کے نامعلوم نمائندہ افسر آمنے سامنے تھے۔
جسٹس فائز نے پوچھا اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟۔ سہیل محمود نے بتایاکہ ملک سے باہر ہیں۔ جج نے پوچھا کہ آپ نے کچھ رپورٹس دینی تھیں۔ جواب دیا گیا کہ جمع کرائی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پہلے گزشتہ عدالتی حکم پڑھ لیں۔ عدالتی حکم پڑھا گیا جس میں دھرنے کی سیکورٹی پر خرچہ، پولیس، آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت تھی۔ عدالت میں اسلام آباد پولیس کی رپورٹ پڑھی گئی تو جسٹس فائز نے پوچھاکہ کیا واقعی دھرنا آپریشن میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی؟۔ عدالت کو بتایا گیاکہ اسلام آباد میں کوئی بندہ نہیں مرا، صرف 172 زخمی ہوئے ہیں۔ جج نے پوچھاکہ سڑک بند ہونے سے جو ایک بچہ ایمبولینس میں جاں بحق ہواتھا وہ کیا تھا؟۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ اس کی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے اور نو افراد اس مقدمے میں گرفتار ہیں۔جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ کیا پھر ٹی وی چینلز غلط خبریں چلارہے ہیں؟۔یا آپ بتانا نہیں چاہ رہے؟۔ سرکاری وکیل نے کہاکہ وہ راولپنڈی میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جج نے کہاکہ تو کیا اسلام آباد پولیس کا سربراہ کہتاہے کہ وہ راولپنڈی پولیس سربراہ سے بات نہیں کرے گا اس لیے رپورٹ میں یہ بات نہیں؟۔ سرکاری وکیل نے بتایاکہ اسلام آباد پولیس کی تین گاڑیاں جلائی گئی ہیں۔جج نے پوچھا کہ عام لوگوں کا کتنا نقصان ہواہے اس کی کیا تفصیلات ہیں؟۔عام لوگوں کی کتنی گاڑیاں اور پراپرٹی جلائی گئی اس کا بتایا جائے۔ سرکاری وکیل نے کہاکہ اٹارنی جنرل کے دفتر میں ایک رپورٹ آئی ہے مگر اس پر کسی ادارے کی طرف سے کوئی دستخط نہیں ہیں اس لیے عدالت میں پیش نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ذمہ داری کون لے گا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹس تو پورے ملک کے بارے میں ہوں گی اس میں تو راولپنڈی اسلام آباد کا معاملہ نہیں ہوگا، بتایا جائے کہ کتنے لوگ مرے، کتنے زخمی ہوئے، کتنی پراپرٹی کو نقصان پہنچا اور اس کا تخمینہ کیا ہے، خرچ کتنا آیا اس کا بھی پوچھا تھا۔ سرکاری وکیل نے بتایاکہ وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دھرنے کی سیکورٹی پر چودہ کروڑ ساٹھ لاکھ کے اخراجات ہوئے۔ جسٹس قاضی نے کہا کہ آپ گھبرا کیوں رہے ہیں؟ تحمل سے کھل کر بتائیں، یہ پیسہ عوام کی امانت ہے، یہ سرکار کے نہیں عوام کے پیسے ہیں، غلط فہمی میں نہ رہیں۔کیا بطور پاکستانی شہری بھی آپ کو معلوم نہیں کتنے لوگ مرے، کتنا نقصان ہوا؟۔ سرکاری وکیل نے کہاکہ بطور شہری تو ہم سب جانتے ہیں، مگر عدالت میں رپورٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔جج نے کہاکہ پھر ہم یہاں کس لیے بیٹھے ہیں، کون سی وزارت یہاں سے کتنی دورہے؟۔وکیل نے کہاکہ راولپنڈی کی رپورٹ نہیں آئی کہ کتنا نقصان ہوا ہے، عدالت نے پنجاب حکومت سے رپورٹ نہیں مانگی تھی۔
جسٹس مشیرعالم جو کافی دیر سے خاموش بیٹھے سن رہے تھے پوچھنے لگے کہ مظاہرین کے پاس آنسو گیس کے شیل کہاں سے آئے؟۔ دارالحکومت میں اسلحہ کیسے اور کہاں سے آیا؟۔ اگر دارالحکومت کو محفوظ نہیں بنا سکتے تو پھر ملک کا کون سا شہر محفوظ بنایا جاسکتا ہے؟۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ یہ ہمارا ہی ملک ہے، بتائیں کتنے مرے، کتنے زخمی ہوئے، کتنی مالیت کی پراپرٹی کو نقصان پہنچایا گیا، اس کا تخمینہ لگائیں، اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھ کربتائیں کہ کیا ایسا کیا جاسکتا ہے؟ اگر یہ اسلام کے مطابق نہیں تھا تو میڈیا نے اس مسئلے کو کیوں نہیں اٹھایا؟۔بلکہ میڈیا اس کے برعکس فتنہ کیوں پھیلا رہے ہیں۔ میڈیا نے عدالتی حکم میں شامل کی گئی قرآن کی تعلیمات کو نظرانداز کیا، کیا پاکستان میں اسلام کی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے؟۔ کل کو یہ کسی کو بھی میڈیا پر بلاکر کہیں گے کہ دوچار گالیاں دیں۔ کیا یہ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ جلاﺅ گھیراﺅ کریں، ہم میڈیا کے خلاف ایکشن کیوں نہ لیں، کیوں اشتعال پھیلا رہے ہیں، کیا یہ میڈیا والے قانون سے بالاتر ہیں، ہم بھی نہیں چاہیں گے کیونکہ اظہار رائے کی آزادی ہے مگر بتایا جائے کہ اس پورے جھگڑے کے دوران کس چینل نے اسلام یا پاکستان کی بات کی؟۔ کیا اسلام کی بات کرنا پاکستان میں جرم ہوگیا ہے؟ نہ ادارے اور نہ ہی میڈیا بات کررہاہے، یہ ایجنسیاں کہاں ہیں؟ آئی ایس آئی کہاں ہے؟ یہ سامنے آکر معلومات کیوں نہیں دیتیں، یہ چھپا کیوں رہے ہیں۔ پھر دوسرا سوال بھی ہوگا کہ ایجنسیوں پر خرچہ کیوں کر رہے ہیں؟ہم سے بھی پوچھا جانا چاہیے اگر ہم اپنا کام نہیں کرتے کہ ہم پر خرچ کیوں ہو رہا ہے۔ جج سمیت ہرایک کا احتساب ہوناہے، ہم اسلام سے اتنا دور کیوں چلے گئے ہیں کہ جو مرضی ہے کرلو۔ اسلامی ممالک کا حشر دیکھ لیں، کیا ہو رہا ہے، کس کا ایجنڈا ہے۔ عراق ،شام کو دیکھ لیں، ایک سے ایک جارہا ہے، ملک کی قدر ان سے پوچھیں جن کے پاس نہیں، روہنگیا کے مسلمانوں سے پوچھیں جن کے پاس ملک نہیں، مفت ملنے والی چیز کی ہم قدر نہیں کرتے، یہاں ہر ایک لڑنے اور تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، لڑیں اور تباہ کر دیں، یہاں جو غلطی پر ہے وہ دوسروں کو ڈانٹ رہاہے۔ میڈیا کا یہ کردار ہے، آئی ایس آئی کیوں خاموش ہے۔ آپ کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ ریاست کا تحفظ کریں، بتائیں کیا تحفظ کیا؟ اس ملک میں آپ سے کوئی پوچھتا نہیں، جن کے تنخواہ کے ٹیکسوں سے آپ پلتے ہیں وہ بہت شریف لوگ ہیں، بہت ایمان والے لوگ ہیں۔ کیا اب یہ مثال بن گئی ہے کہ اپنے ہدف کیلئے دھرنا دو، پراپرٹی تباہ کردو، یہ سبق پڑھانا چاہتے ہیں، ہر چیز میں سیاسی ایجنڈا نہیں ہوتا، کچھ چیزیں ملک کیلئے ہوتی ہیں، ہمیں خود کو دی جانے والی گالیوں کی پروا نہیں مگر پاکستان اور اسلام کے خلاف بات برداشت نہیں کی جائے گی ورنہ ہم بھی عراق، شام اور افغانستان بن جائیں گے۔ ہم اس خطے کے لوگ کیوں مسلمان ہوئے تھے؟۔ یہاں کوئی جنگ نہیں ہوئی تھی، تلوار کے زور پر اسلام نہیں پھیلا۔ ہم جج بھی اس ملک کے شہری ہیں، دوسرے اداروں میں تو پگڑی اچھال رہے ہیں، پولیس بھی ہماری ہے اور یہاں تک کہ مظاہرین بھی ہمارے ہی لوگ ہیں۔ مگر میڈیا کے چینل کیا کررہے ہیں۔ہم پھر چینل کو ڈھونڈیں گے، دیکھیں گے پیچھے کون ہے، پیسے کہاں سے آتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل صاحب، رپورٹ میںایک چینل کا نام بھی ہے، کیا اس کا نام لے لوں؟۔سرکاری وکیل نے کہاکہ یہ رپورٹ خفیہ ہے اس لیے عام نہ کی جائے۔ جسٹس قاضی فائز بولے کہ میڈیا بتائے کیا کسی ایک بھی ایسے شخص کو ٹی وی پر بلایا جس نے اسلام کی بات کی ہو؟۔ ایسے پروگرام چلاتے ہیں اور درمیان میں بسکٹ کا اشتہار چلتاہے، ایک بسکٹ کے اشتہار کے پیچھے ضمیر اور ایمان بیچ دیتے ہیں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس موقع پر کہاکہ ملک کا امیج خراب کردیا گیا ہے، چہرے کو بگاڑنے کی کوشش ہوئی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ اب تو ہمیں اپنے چہرے کے امیج سے نفرت ہے، آئینے میں خود کو دیکھنا اچھا نہیں لگتا۔معلوم نہیں ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں۔ کچھ چینل پر تفریق کی جارہی ہے کہ آرمی حکومت سے الگ ہے، یہ غلط بات ہے، آرمی حکومت کا حصہ ہے، بدنام نہ کیاجائے، یہ سب عوام کے پیسے سے پلتے ہیں، ہم جج بھی عوام کے پیسے سے تنخواہ لیتے ہیں، یہ چینل ملک کی خدمت نہیں کر رہے، اپنا ایجنڈا ہے، تفریق ڈال رہے ہیں۔وزارت داخلہ کو چاہیے کہ سب سے معلومات حاصل کرکے دے، اگر کوئی نہیں دیتا تو بتایا جائے کہ بات نہیں مانی جارہی۔ ہم میڈیا اوران کے مالکان کے پیچھے بھی جائیں گے اگر انہوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا، پھر ہم دیکھیں گے، کچھ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، یہ آپ کا بھی ملک ہے۔ اگر میڈیا مثبت کردار ادا نہیں کر سکتا تو بہتر ہے بند کردیں، ہم ان کو بلاکر ٹی وی پر چلائی گئی چیزیں دکھائیں گے اور پھر پوچھیں گے، پیمرا کو بھی بلائیں گے۔ اتنی کیا ہوس ہے اقتدار اور کرسی کی۔ آج آپ کی جگہ زبردستی آکر بیٹھ گئے کل کو یہاں بھی بیٹھیں گے۔ قرآن پڑھنے کیلئے ہے مگر عمل کی بجائے اونچی جگہ پر غلاف میں لپیٹ کررکھ دیتے ہیں۔ہندوستان میں بھی رہ سکتے تھے پاکستان کیوں بنایا، تاکہ آزاد ہوں، ملک کی جڑیں کاٹی جارہی ہیں اور ہماری ایجنسیاں بھی نظر انداز کررہی ہیں۔آئی ایس آئی کے سینئر افسر کو بلایا تھاکیوں نہیں آئے؟۔عدالت میںکھڑے ایک شخص نے کہاکہ وہ وزارت دفاع سے آیاہے اور آئی ایس آئی کی جانب سے جواب لایا ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ سینئر افسر کیوں نہیں آئے؟۔ وزارت کے نمائندے نے کہاکہ آئی ایس آئی وزارت دفاع کے ماتحت ادارہ ہے اس لیے میں آیاہوں۔
جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ میڈیا والوں کو اپنی ریٹنگ کی فکر ہے، اگر چاہتے ہیں تو ہم بند کردیں گے تو پھر زیادہ نقصان ہوجائے گا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ ہم جج اپنے حلف کو تازہ کردیتے ہیں، آئین میں سے ججوں کاحلف پڑھا جائے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے حلف پڑھا تو جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ ہم نے ملک کے تحفظ اور دفاع کاحلف لیا ہے ، یہ دفاع ہم بندوق کے ذریعے نہیں کرتے، ہم نے آئین کے ذریعے تحفظ کرناہے۔ اس کے بعد عدالت میں فوجی افسران کیلئے دیا گیا حلف پڑھا گیا۔
عدالت نے پیش کی گئی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اٹارنی جنرل کے ملک واپس آنے کے بعد مقدمے کی سماعت کی جائے گی ۔ اس دوران سیکورٹی ادارے اور وزارت داخلہ اپنی رپورٹس جمع کرائیں۔ آج کی سماعت کا تحریری حکم بعد میں جاری کیا جائے گا۔
تفصیلات اپ ڈیٹ کی جا رہی ہیں