حدیبیہ فیصلہ اور پاناما جج
Reading Time: 6 minutesسپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز مل ریفرنس فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو کی اپیل خارج کرنے کی تفصیلی وجوہات جاری کیں تو فیصلے میں لکھے ایک ایک لفظ کی رپورٹنگ کرنے کے بعد گھر جانے کے لیے دفتر سے نکلا_
دفتر کے باہر اینکر حامد میر سے حادثانی ملاقات ہو گئی، میر صاحب کو شاید نیب اپیل پر تفصیلی فیصلے کے جاری ہونے کی خبر نہیں تھی_ میں نے بتایا کہ عدالت عظمی نے حدیبیہ کیس میں اسحاق ڈار کے بیان کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے_ پوچھنے لگے وہ کیسے؟ میں نے بتایا فیصلے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ اسحاق ڈار کا بیان نیب قانون کے تحت ریکارڈ ہوا نہ ہی دفعہ 164 کے تحت _
حامد میر صاحب نے جواب دیا سپریم کورٹ نے بالکل درست کہا ہے، حقیقت بھی یہی ہے_ یہ کہہ کے وہ دنیا ٹی وی کے دفتر میں داخل ہوگئے _ میر صاحب شاید کسی پروگرام میں بطور تجزیہ کار شرکت کے لیے تشریف لائے تھے _ میں گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔
گھر پہنچا تو ‘دنیا کامران خان کے ساتھ’ پروگرام کے اسٹاف سے واحد اشرف صاحب کا فون آ گیا _ بولے عمران، حدیبیہ پیپرز مل پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اس پر بیپر ریکارڈ کرنا ہے اور تم نے بتانا ہے کہ فیصلے میں کیا کہا گیا ہے _ گھر سے دفتر واپسی کے دوران حدیبیہ فیصلے پر بیپر دینے کے لیے نکات تیار کیے_
پروگرام کے سیٹ پر بیٹھ کر بیپر ریکارڈ ہونے کا انتظار کر رہا تھا تو اینکر معید پیرزادہ صاحب اچانک تشریف لے آئے _ شاید میرے سیٹ پر پہنچنے سے پہلے انہوں نے اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کی تھی اور اب وہ اپنی دستاویز اور لیپ ٹاپ اٹھانے آئے تھے، ان کی طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی، پوچھا خیریت سے بیٹھے ہو، بتایا کہ حدیبیہ ریفرنس میں عدالت عظمی کے فیصلے پر کامران خان صاحب کے پروگرام میں تفصیلات بتانی ہیں، پوچھا فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کیا کہا ہے ؟ میں نے بتایا فیصلے میں پرویز مشرف کو چارج شیٹ کیا گیا ہے، حیرانگی سے پوچھا وہ کیسے؟ میں نے بتایا کہ جس طرح عمران خان نا اہلی کیس میں ایک جج نے نواز شریف کو نا اہل کیا، اسی طرح حدیبیہ کیس میں سب کلیئر ہوگئے لیکن پرویز مشرف کو شریف خاندان کو ملک بدر کرنے کا ملزم قرار دیا گیا، ان کی تشفی کے لیے فیصلے کی مزید کچھ تفیصیلات انہیں بتائیں، وہ میرا نمبر لے کر وہاں سے رخصت ہوئے تو فیصلے پر پروگرام میں تفصیلات ریکارڈ کرنے کا مرحلہ بھی دس منٹ میں مکمل ہو گیا۔
عدالت کے حدیبیہ اپیل کو مسترد کرنے کی وجوہات پڑھیں،تنقیدی جائزہ لیکر نتیجہ اخذ کریں اور ان نتائج کا پانامہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس کے ساتھ موازنہ کریں تو ذہن میں متعدد سوالات جنم لیتے ہیں _
کیا پانامہ مقدمے کی سماعت کرنے والے ججز کی آبزرویشنز درست تھیں؟ اگر پانامہ کیس میں ججز کے ریمارکس آئینی اور قانونی اعتبار سے درست تھے تو حدیبیہ ریفرنس میں نیب اپیل پر دیا جانے والا فیصلہ کیا ہے؟ اگر فیصلہ میں بیان کی گئی وجوہات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو عدالت عظمی کے دو معزز ججز کے سابق وزیراعظم نواز شریف،اسحاق ڈار کے بارے میں فیصلے میں درج آبزرویشنز پر سوالات کی ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں،ایک بات واضح رہے کہ نیب حدیبیہ اپیل پر فیصلہ تینوں ججوں (جسٹس مشیر عالم،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،جسٹس مظہر عالم میانخیل) نے متفقہ دیا ہے،جسٹس قاضی فائز عیسی فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اسحاق ڈار کا حدیبیہ ریفرنس میں بیان نہ اسیکشن 164 کے تحت ریکارڈ کیا گیا نہ ہی نیب قانون کے سیکشن 26 کے تحت،وہ کہتے ہیں قانون اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ ایسے بیان کسی بھی ملزم کے خلاف استعمال کیا جائے،معزز جج لکھتے ہیں اگر نیب قانون کے تحت یہ بیان ریکارڈ کیا جاتا تو چیئرمین نیب یا احتساب عدالت میں ریکاڑد ہو نا تھا،اگر سیکشن 164 کے تحت ریکاڑد کیا جاتا تو مجسٹریٹ کے سامنے حدیبیہ ریفرنس کے ملزمان شریف خاندان کی موجودگی بھی قانون کے مطابق ضروری تھی،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پانامہ مقدمہ میں کہا کہ اسحاق ڈار کے بیان کا کبھی کسی فورم پر جائزہ نہیں لیا گیا ،ڈار کا بیان منی لانڈرنگ کا بڑا ثبوت ہے،ایک ارب بیس کروڑ روپے کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے میں تحریر کرتے ہیں منی لانڈرنگ 1991 اور 1992 میں پاکستان میں جرم نہیں تھا،پاکستان میں منی لانڈرنگ کو جرم 2007 میں تسلیم کیا گیا جب ملک میں پہلی مرتبہ انسداد منی لانڈنگ کا قانون بنایا گیا،سوال یہ ہے کہ اگر منی لانڈرنگ نوے کی دہائی میں جرم نہیں تھا تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے لیے رقم بیرون ملک لانڈر کرنا کا الزام کے پلے کیا راہ جاتا ہے؟ فاضل جج لکھتے ہیں کہ نیب نے 2000 سے لیکر 2011 تک ریفرنس کو شریف خاندان کا دباو میں رکھنے کے لیے بلاجواز التواٴء میں رکھا، آحتساب عدالت سے نیب وکیل نے درجنوں التواء حاصل کیے،عدالت میں ثبوت پیش ہوئے نہ گواہ، نہ ہی حدیبیہ کو ملزمان پر ریفرنس چارج شیٹ کیا گیا،آئین کا حوالہ دیکر جسٹس قاجی تحریر کرتے ہیں کسی شخص کے خلاف پراسیکیوشن کو غیر معینہ مدت تک التواء میں نہیں رکھا جا سکتا،اگر ایسا ہو تو یہ پراسیکیوشن نہیں ملزمان کو ڈرانہ دھمکانا اور دباو میں رکھنے کے مترادف ہے جو موت سے بھی زیادہ سنگین ہے،فیصلہ میں فاضل جج مک مکا کے الزامات کو ردی کی نوکری کی نذر کیا ہے ،وہ لکھتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز کا ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ عین قانون کے مطابق ہے،اگر یہ باتیں درست ہے تو معزز ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز افضل خان کی نیب اور دیگر اداروں پر نواز شریف کے اثر انداز ہونے کی آبزروشنز کی وقعت کیا راہ جاتی ہے؟ اگر دونوں معزز نے بالکل درست استدلال پیش کیا ہے تو پھر حدیبیہ فیصلہ میں لکھی وجوہات کی اہمیت کتنی ہےیہ سوالات ان کے زہین میں پیدا ہوتے ہیں جن کی دونوں مقدمات میں گہری دلچسپی اور گہری نظر ہے،حدیبیہ کے فیصلے میں شریف خاندان کی ملک بدری کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا اورا نہیں جلا وطنی کرنے والے ذمہ داران کے خلاف عدم کاروائی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے،فیصلہ شریف خاندان کو جلا ون کرنے والے ذمہ دران کا نام تو نہیں لکھا گیا لیکن تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ واضع اعشارہ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب ہے۔
موجودہ سیاسی حالات کا بھی تنقیدی جائزہ لیں تو پانامہ ، حدیبیہ مقدمات اور نا اہلی مقدمات اور فیصلوں کے چکر میں اگر کوئی بری انداز سے نظر انداز ہوا ہے تو وہ اس ملک کے عوام ہے،حکومت اپنے اقتدار کو دوائم دینے کے چکر میں ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی روز اول سے یہی کوشش رہی ہے کہ حکومت کو چلتا کرکے خود اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوا جائے،صحت ،تعلیم،بے روزگاری اور دیگر عوامی مسائل پر حکومت نے توجہ نہیں دی تو اپوزیشن نے بھی اپنی سیاست کو عوامی مسائل سے پاک رکھا ہواہے،اپوزیشن کی نظر میں پانامہ،حدیبیہ ہی اصل اپوزیشن ہے باقی عوام جائیں بھاڑ میں،بالکل اسی طرح جس طرح حکومت نے عوام سے رویہ رکھا ہے،چیف جسٹس آف پاکستان نے مارگلہ پہاڑیوں کی کٹائی کے مقدمہ کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالت عظمی کا امسال کا ایجنڈا صحت اور تعلیم ہے،اعلی عدلیہ کے ججز کے حلد میں شامل ہے کہ وہ آئین ،قانون اور عوام کے بنیادی حقوق کو تحفظ کریں گے،یہ اچھا اقدام ہے کہ اعلی عدلیہ نے صحت اور تعلیم کے معاملات میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے کا اعیادہ کیا ہے کیونکہ عوام کو صحت اور تعلیم کے حوالے سے بے شمار مشکلات درپیش ہیں،سب سے بڑے منصب کی جانب سے پینے کے صاف پانے جیسے بنیادی ایشو پر نوٹس لینا بھی لائق تحسین ہے،یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جہاں ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کریں وہیں وگوں کوفوری انصاف کی فراہمی بھی آئینی ذمہ داری ہے،عدلیہ جہان صحت اور تعلیم کے مسائل کو فوکس کرنے جاری رہی ہے وہیں عدلیہ ان مشکلات کا جائزہ لیں جوکورٹ کچہریوں میں لوگوں کو درپیش ہیں،معزز جج مقدمات کی سماعت کے دوران اس بات کا لاتعداد بار اظہار کرچکے ہیں وہ صرف آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہے،ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے منصب سے درخواست ہے وہ یہ بھی دیکھیں کہ کورٹ کچہریوں میں عوام کو فوری انصاف مل رہا ہے،کیا ماتحت عدلیہ کے ججز قانون کے عین مطابق فیصلہ کر رہے ہیں؟کیا انسداد دہشت گردی،انسداد کرپشن،کرایہ داری کے معاملات کا فیصلہ خصوصی عدالتوں کے جج قانون میں فراہم قانونی معیاد کے مطابق کر رہے ہیں؟پنجاب کے کرایہ قانون ک مطابق رینٹ ٹریبونل عدالت کرایہ داری کے مقدمات کا فیصلہ چار ماہ میں کرنے کی پابند ہے اگر ایسا نہ ہو تو خصوصی عدالت کے جج کو روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ کی سماعت کرنا ہوتی ہے،انسداد دہشت گردی کی عدالت اور احتساب عدالت کو بھی ہر مقدمہ کو ایک ماہ نمٹانا ہوتا ہے،اگر ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایک مقدمہ میں ایسا نہیں ملے گا جس کا فیصلہ قانونی معیاد کے اندر کیا گیا ہو۔