ڈاکٹرعاصم نے عدالت میں کیا کہا
Reading Time: 2 minutesملک میں نجی میڈیکل کالجوں کے گرتے معیار کے مقدمے میں چیف جسٹس نے کہا ہے کہ خرابی پر انگلیاں ڈاکٹر عاصم کی طرف اٹھیں اس لیے طلب کیا، جس پر ذمہ داری عائد ہوئی نہیں چھوڑیں گے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی درخواستوں کی سماعت کی۔ عدالتی نوٹس پر ڈاکٹر عاصم پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیکل کالجوں کی خرابی کا ذکر ہوتا ہے تو لوگ آپ کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں، کیوں اٹھاتے ہیںہمیں نہیں معلوم، ہوسکتا ہے کہ سیاسی مخالفت ہو، اگر آپ کی صحت اجازت دیتی ہے تو عدالتی کارروائی میں معاونت کریں۔ خرابیاں آپ کی وجہ سے ہوئیں یا نہیں ہوئیں، اگر سمجھتے ہیں کہ غلطیاں ہوئیں تو درست کرنے کیلئے اقدامات تجویز کریں۔ اگر عدالت میں کسی پر ذمہ داری عائدکرنے کا مرحلہ آیاتو یہ وعدہ نہیں کرتے کہ کسی کو چھوڑیں گے۔ ڈاکٹر عاصم نے کہاکہ میڈیکل کے شعبے میں زوال کا مجھے بھی افسوس ہے، میرے دادا ڈاکٹر ضیا ءالدین اس شعبے سے منسلک تھے ، ہماری چوتھی نسل بھی طب کے شعبے میں ہے، میرے والد نے 1957 میں میڈیکل کالج بنایا، میں خود سرکاری ملازم رہا، آرتھوپیڈک سرجن ہوں۔عدالت میں سیاست سے بالاتر ہوکر کھڑا ہوں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ کو یہ ساری خرابیاں نظر آرہی ہیں یا آپ کی نظر میں سب اچھاہے؟۔ ڈاکٹر عاصم نے کہاکہ خرابیاں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاہورمیں کیس کی سماعت کے دوران بھی آپ پر انگلیاں اٹھیں، اس کی وضاحت کریں۔ ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ مجھے سوال بتائے جائیں تاکہ جواب دے سکوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الزام ہے کہ بیس بیس کروڑ کے بیگ ملتے تھے اور اس کے بعد پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو لائسنس دیے گئے۔ ڈاکٹر عاصم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی دستاویز عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس رپورٹ میں ضیاء الدین میڈیکل کالج کا نتیجہ ہے، یہ دنیا بھر میں ٹاپ پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بھی الزام ہے کہ آپ اپنے کالج کے نتائج کو بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں، آپ کو سنیں گے، بیماری کی حالت میں تکلیف دی ہے، سماعت سن کر یا اپنے نمائندے کو بٹھاکر کارروائی کے نوٹس لیں اور جواب دیں۔ڈاکٹر عاصم نے کہاکہ میں فٹ ہوں، یہ اہم معاملہ ہے۔ عدالت سارا ریکارڈ منگوالے، ان کو میری گردن مل گئی ہے، یہ سیاست کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت سیاست میں نہیں پڑے گی، تاہم اگر آپ خود کو صاف ثابت نہ کرسکے تو پھر جو آپ گردن اور پھندے کی بات کررہے ہیں اس سے بچ نہیں پائیں گے۔
عدالت کو پی ایم ڈی سی کے وکیل اکرم شیخ نے بتایا کہ ریگولیشن اور قوانین کا جائزہ لیاجانا چاہیے، اکیس کروڑ لوگوں کی زندگی کا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش ہے قانون بھی ٹھیک ہوجائے اور جتنے میڈیکل کالج کھل چکے ہیں ان کی تصدیق بھی چاہتے ہیں، ایک گھر میں دوبستر کا ہسپتال بنادیاجاتاہے، صحت کے شعبے میں بہتری کیلئے ہم سب کو حصہ ڈالناہوگا۔ پی ایم ڈی سی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔